امریکہ سےتعلقات کا خیرمقدم، ’ڈو مور‘ کی مذمت:پاکستان

پاکستان وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ سیاسی مصلحت کی خاطر کسی تیسرے ملک کو نشانہ بنانے اور حقیقی دہشت گردی کے خطرات سے دور رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لیے دو طرفہ تعاون کا طریقہ کار استعمال کیا جا رہا ہے۔‘

وزارت خارجہ پاکستان نے بھارت اور امریکہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں دہشتگردی کے متعلق غیر ضروری حوالہ مسترد کر دیا ہے (تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستان کی وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے پر شہباز شریف حکومت کے لیے جاری کیے گئے امریکی بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے پاکستان نے امریکہ کے ساتھ دیرینہ تعلقات کے اعادے پر زور دیا ہے۔
پرائم منسٹر آفس کے نئے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر جاری بیان کے مطابق ’پاکستان کی نئی حکومت خطے میں امن، سلامتی اور ترقی کے مشترکہ اہداف کو فروغ دینے کے لیے امریکہ کے ساتھ تعمیری اور مثبت انداز میں رابطہ رکھنے کی خواہش رکھتی ہے۔ ہم مساوات، باہمی مفاد اور باہمی فائدے کے اصولوں پر اس اہم تعلقات کو مزید گہرا کرنے کے منتظر ہیں۔ ‘
’پاکستان وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف کی جانب سے عہدہ سنبھالنے پر وائٹ ہاؤس کے بیان کا خیرمقدم کرتا ہے۔ ہم امریکہ کی طرف سے پاکستان کے ساتھ دیرینہ تعلقات کے اعادے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔‘

اس سے قبل وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے کہا تھا کہ جمہوری پاکستان امریکی مفادات کے لیے اہم ہے۔

دوسری جانب وزارت خارجہ پاکستان نے بھارت اور امریکہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں دہشت گردی کے متعلق حوالے کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے۔

پاکستان وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ سیاسی مصلحت کی خاطر کسی تیسرے ملک کو نشانہ بنانے اور حقیقی اور ابھرتے ہوئے دہشت گردی کے خطرات سے دور رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لیے دو طرفہ تعاون کا طریقہ کار استعمال کیا جا رہا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے خلاف جو دعوے کیے گئے ہیں وہ بد نیتی پر مبنی ہیں اور قابل اعتبار نہیں۔

بدھ کو وزارت خارجہ نے کہا، ’پاکستان گزشتہ دو دہائیوں کے دوران دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں عالمی برادری کا ایک بڑا، فعال، قابل اعتماد  شراکت دار رہا ہے۔ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے میں پاکستان کی بےمثال کامیابیاں اور قربانیاں امریکہ سمیت عالمی برادری تسلیم کرتی ہیں۔ خطے کے کسی بھی ملک نے امن کے لیے پاکستان سے زیادہ قربانی نہیں دی۔ پاکستان کے خلاف بھارت کا اشارہ درحقیقت اپنی ریاستی دہشت گردی اور وحشیانہ مظالم کو چھپانے کی بھرپور کوشش ہے۔

’عالمی برادری کے ذمہ دار افراد کو بھارت کی جانب سے دہشت گردی کو ریاستی پالیسی کے آلے کے طور پر استعمال کرنے کی مذمت کرنی چاہیے۔ یہ ریکارڈ پر ہے کہ بھارت کا دہشت گردی کے نیٹ ورک دوسرے ممالک کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے اور اقوام متحدہ کی نامزد دہشت گرد تنظیموں کی مدد کر رہا ہے۔ اس سنگین صورت حال کا نوٹس لینے میں ناکامی بین الاقوامی ذمہ داری سے دستبرداری کے مترادف ہے۔‘

وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’ہم دونوں شراکت دار ممالک سے توقع کرتے اور ان پر زور دیتے ہیں کہ وہ جنوبی ایشیا میں امن اور سلامتی کے معاملات پر معروضی نقطہ نظر اپنائیں اور اپنے آپ کو ایسے موقف سے  نہ جوڑیں جو یک طرفہ، سیاسی اور زمینی حقائق سے دور ہو۔‘

بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم نے امریکہ بھارت بیان میں پاکستان کے حوالے سے اپنے خدشات اور اس بیان کو مسترد کیے جانے کے متعلق سفارتی ذرائع سے امریکی فریق کو آگاہ کر دیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بھارت امریکہ مشترکہ بیان میں کیا کہا گیا تھا؟

امریکہ اور بھارت نے اپنے مشترکہ بیان میں سرحد پار دہشت گردی کے ہر قسم کے استعمال کی شدید مذمت کی اور 26/11 ممبئی حملے اور پٹھان کوٹ حملے کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا تھا۔

انہوں نے تمام دہشت گرد گروہوں کے خلاف ٹھوس کارروائی کا مطالبہ کیا جن میں القاعدہ، داعش، لشکر طیبہ اور جیش محمد (جے ای ایم) اور حزب المجاہدین جیسی تنظیمیں شامل ہیں۔

پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ فوری اور پائیدار کارروائی کر کے اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ اس کے زیر قبضہ کوئی علاقہ دہشت گرد حملوں کے لیے استعمال نہ ہو۔

بیان میں دہشت گرد گروہوں اور افراد کے خلاف پابندیوں اور نامزدگیوں کے بارے میں معلومات کا تبادلہ جاری رکھنے، پرتشدد بنیاد پرستی کا مقابلہ کرنے، دہشت گردی کے مقاصد کے لیے انٹرنیٹ کے استعمال اور دہشت گردوں کی سرحد پار نقل و حرکت کے بارے میں بھی عزم کا اظہار کیا۔

دوسری جانب امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے کہا ہے کہ امریکہ کے پاک فوج کے ساتھ مضبوط عسکری تعلقات ہیں اور اس سلسلے کو جاری رکھنے کی ہرممکن توقعات موجود ہیں۔

ایک پریس بریفنگ میں پینٹاگون کے سینیئر عہدیدار نے کہا کہ اِس خطے میں سلامتی اور استحکام کے حوالے سے امریکہ کے پاکستان کے ساتھ مشترکہ مفادات ہیں۔ جان کربی کہا ہم تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان خطے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔

اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات اس وقت متاثر ہونا شروع ہوئے جب سابق وزیر اعظم عمران خان نے امریکہ پر اپنی حکومت کو گرانے کی سازش کا الزام لگایا۔ انہوں نے ایک سفارتی کیبل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امریکی محکمہ خارجہ کے ایک اہلکار نے تحریک عدم اعتماد ناکام ہونے کی صورت میں دو طرفہ تعلقات کے لیے نتائج سے خبردار کیا تھا۔

امریکہ نے ایک سے زیادہ مرتبہ اس الزام کی تردید کی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان