کراچی جہاں اب مرنا بھی ’آسان نہیں‘

کراچی میں پی ای سی ایچ ایس کا قبرستان پانچ سالوں سے سرکاری طور پر بھر چکا ہے۔ اس کے باوجود یہاں آئے روز نئی قبریں نظر آتی ہیں جو عملے کی مٹھی گرم کرکے ٹوٹی پھوٹی قبروں پر دوبارہ کھڑی کی جاتی ہیں۔

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے قبرستان بھر رہے ہیں اور مرنے والوں کی تدفین کے لیے جگہ تیزی سے ختم ہو رہی ہے، لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو صحیح قیمت وصول کرکے آپ کے کسی پیارے کی تدفین کے لیے پرانی قبروں پر ایک نیا ’پلاٹ‘ تیار کر کے فراہم کرسکتے ہیں۔

دو کروڑ افراد پر مشتمل شہر میں ’پاکستان ایمپلائز کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی‘ (پی ای سی ایچ ایس) کا قبرستان پانچ سالوں سے سرکاری طور پر بھر چکا ہے۔ اس کے باوجود یہاں آئے روز نئی قبریں نظر آتی ہیں جو عملے کی مٹھی گرم کرکے ٹوٹی پھوٹی قبروں پر دوبارہ کھڑی کی جاتی ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ایک گورکنوں کی ایک ٹیم کو یہاں پرانی قبروں پر نئی قبریں کھودتے ہوئے دیکھا۔

خلیل احمد نامی گورکن نے بتایا: ’پورے کراچی میں تدفین کوئی جگہ نہیں ہے۔ کسی بھی قبرستان میں نئی قبر کے لیے جگہ نہیں ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر ہم نئی قبریں بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں پرانی قبروں کو توڑنا ہوگا۔‘

کراچی کے اس ضلع میں سرکاری تدفین کی فیس سات ہزار 900 روپے ہے لیکن دو مقامی افراد نے بتایا کہ گذشتہ سال پی ای سی ایچ ایس قبرستان میں اپنے پیاروں کو سپرد خاک کرنے کے لیے انہیں 55 ہزار اور ایک لاکھ 75 ہزار روپے ادا کرنا پڑے۔

خلیل احمد نے کہا کہ فیسیں عملے کے 40 ارکان کے درمیان تقسیم کی گئی ہیں، جو کام نہ ہونے پر قبرستان میں سایہ دار جگہوں پر لیٹ کر اپنا وقت گزارتے ہیں۔

گورکن مافیا

خلیل احمد اور ان کے ساتھی اس عملے کا حصہ ہیں، جسے سیاست دان اور میڈیا ’گورکن مافیا‘ کہتے ہیں۔

ٹینکر مافیا، دودھ مافیا، شوگر مافیا اور لینڈ مافیا کے بعد شہر کو اس گورکن مافیا کا بھی سامنا ہے، لیکن فری لانس قبر کھودنے والے پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی کے مرنے کا بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں سب سے بڑا ملک ہے جس میں 22 کروڑ افراد آباد ہیں اور ہر سال ان کی تعداد میں 40 لاکھ سے زیادہ کا اضافہ ہو رہا ہے۔

جیسے جیسے آبادی بڑھتی ہے اسی طرح دیہی علاقوں سے شہروں کی طرف لوگوں کی نقل مکانی بڑھ رہی ہے۔

محمد اسلم نے کراچی کی آبادی میں اضافے کے ساتھ ہی گورکن مافیا کو پھلتے پھولتے دیکھا ہے۔

72 سالہ اسلم نے کہا کہ جب وہ 1953 میں یہاں منتقل ہوئے تو پی ای سی ایچ ایس قبرستان ایک ویران جگہ تھی لیکن اب یہ جگہ تیزی سے سکڑ رہی ہے کیونکہ گذشتہ سالوں کے دوران صرف ان کے خاندان کے 14 افراد کی یہاں تدفین کی گئی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ قبروں کی قیمت بھی بڑھتی چلی گئی۔

1967 میں اسلم کے دادا کی یہاں تدفین کے لیے 50 روپے ادا کیے گئے تھے لیکن 2020 میں مافیا نے ان کے ایک رشتہ دار کی تدفین کے لیے 33 ہزار وصول کیے۔

کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کے ترجمان علی حسن ساجد نے کہا کہ ’بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ شہر کا بنیادی ڈھانچہ ناکافی ہے۔‘

کے ایم سی شہر بھر میں تقریباً 250 قبرستانوں میں سے 39 کا انتظام کرتی ہے جس میں پی ای سی ایچ ایس سکس کا قبرستان بند کر دیا گیا ہے جبکہ باقی تقریباً بھر چکے ہیں۔

ساجد نے مزید بتایا: ’شہر کے کچھ حصوں میں اب تک وہی بنیادی ڈھانچہ ہے جو پاکستان کے قیام کے وقت موجود تھا۔‘

انہوں نے کھلے عام گورکنوں کے مافیاز کے وجود کو تسلیم کیا، جو بند قبرستانوں پر تدفین کر رہے ہیں۔ تاہم انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں نکالنے کی کوششیں جاری ہیں۔

اس مافیا کی راولپنڈی، پشاور اور لاہور میں بھی پنپنے کی اطلاعات ہیں۔

ایک گمشدہ یادگار

ساجد نے کہا کہ پچھلی نسلوں کے ساتھ رشتہ داروں کو ایک ہی جگہ دفن کرنے کے خواہشمند خاندان زیادہ قیمتوں کی پیشکش کرتے ہیں، جس سے گورکنوں کا لالچ مزید بڑھ جاتا ہے۔

گورکن خلیل احمد کا کہنا ہے کہ وہ ایک ایسے شہر میں ایک بنیادی خدمات فراہم کرتے ہیں جو خود کو چلانے کے قابل نہیں ہے۔

کچھ مقامی لوگ اس عمل کو ایک بھرے ہوئے شہر میں زندگی کے ناقص نظام کے طور پر دیکھتے ہیں جبکہ دیگر کے لیے یہ غم و غصے کا باعث ہے۔

محمد عبداللہ سیف کے والد کو کئی دہائیوں قبل پی ای سی ایچ ایس کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا تھا لیکن آج ان کی قبر سیمنٹ کی خالی بوریوں اور مقبروں کے ٹوٹے پھوٹے ٹکڑوں سے گھری ہوئی ہے۔ یہ مافیا عام طور پر مسمار کرنے کے لیے بے نام قبروں کا انتخاب کرتے ہیں۔

32 سالہ عبداللہ نے کہا: ’ہمیں باقاعدگی سے یہاں آنا پڑا ہے ورنہ یہ قبر بھی گرادی جائے گی۔‘

مزمل آصف کی نوعمر بہن کی قبر بھی یہیں موجود ہے، جن کو گذشتہ موسم گرما میں یہاں دفن کیا گیا تھا۔

21 سالہ مزمل نے شکایت کی کہ ’جب کوئی ان کے اوپر سے گزرتا ہے تو قبروں کی بے حرمتی ہوتی ہے۔‘

اور قریبی کورنگی قبرستان میں محمد منیر کو انتہائی افسوسناک نقصان پہنچا ہے۔

ہر سال وہ اس قبرستان میں دعا کے لیے آتے ہیں جہاں ان کے والد کو دفن کیا گیا لیکن یہ قبر کافی عرصے سے غائب ہو چکی ہے۔

یہ 20 سال سے زیادہ عرصہ پہلے منہدم ہو گئی اور اس کی جگہ دوسری قبر بنائی گئی تھی، لیکن وہ متبادل قبر بھی ختم گئی ہے جس پر کسی اور کو دفن کر دیا گیا ہے۔

کچھ سالوں سے جب منیر وہاں جاتے ہیں تو انہیں غیر مانوس ناموں والی سمینٹ سے بنائی گئی نئی نئی قبریں دیکھنے کو ملتی ہیں۔

اب انہیں یقین نہیں ہے کہ ان کے والد کی اصل قبر کہاں ہے۔ انہوں نے کہا: ’یہ تکلیف دہ ہے۔ قبر ان کی آخری نشانی تھی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان