‘عمران خان نے ڈیڈلاک کے خاتمے کے لیے فوج سے مدد نہیں مانگی‘

قومی اسمبلی کا اجلاس کل 16 اپریل کو 12 بجے ہوگا، جس کا سرکلر بھی جاری کردیا گیا ہے، جس میں ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ ہوگی۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کے حوالے سے تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری نے کہا کہ انہوں نے ’سیاسی ڈیڈلاک کو ختم کرنے‘ کے لیے فوج کی مدد نہیں مانگی تھی (تصویر: اے ایف پی)

سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے ٹوئٹر پر ایک ٹویٹ میں کہا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے ’سیاسی ڈیڈلاک کو توڑنے‘ کے لیے فوج کی مدد نہیں مانگی تھی۔

پاکستان تحریک کی رہنما کا سوشل میڈٰیا پر یہ پیغام پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخارکی جمعرات کی پریس کانفرنس کے تناظر میں آیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’وزیراعظم ہاؤس کی طرف سے چیف آف آرمی سٹاف سے رابطہ کیا گیا کہ جب یہ (سیاسی) ڈیڈ لاک برقرار تھا تو اس میں کوئی بیچ بچاؤ کی بات کریں۔‘

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اس پر آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی وہاں گئے، مختلف سٹیک ہولڈرز سے بیٹھ کر تین چیزیں ڈسکس ہوئیں کہ کیا کیا ہوسکتا ہے، ان میں وزیراعظم کا استعفیٰ، تحریک عدم اعتماد واپس  لینا اور وزیراعظم کی طرف سے اسمبلیاں تحلیل کرنے کا آپشن تھا۔ ڈی جی آئی ایس  پی آر کا  کہنا تھا کہ تیسرے آپشن پر وزیراعظم نے کہا کہ یہ قابل قبول ہے، ہماری طرف سے اپوزیشن سے بات کریں جس پر آرمی چیف پی ڈی ایم کے پاس گزارشات لے کر گئے اور ان کے سامنے یہ گزارش رکھی جس پر بحث ہوئی لیکن اپوزیشن نے اس پر کہا کہ ہم ایسا نہیں کریں گے۔

پریس کانفرنس میں سابق وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے دن ملک میں پیدا ہونے والے سیاسی بحران اور مبینہ آپشنز کے حوالے سے سوال کیا گیا تھا، جس کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا: ’یہ آپشنز اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے  نہیں رکھی گئی تھیں۔‘

جبکہ آج کی ٹویٹ میں اس بات کی تردید کرتے ہوئے شیریں مزاری نے کہا، ’آرمی نے اس وقت کے وزیر دفاع پرویز خٹک کے ذریعے میٹنگ بلائی اور تین پرپوزلز سامنے رکھے، جن میں یہ تھا کہ وزیر اعظم استعفیٰ دیں یا تحریک عدم اعتماد میں حصہ لیں یا پھر نئے الیکشنز کرائیں۔‘

تھریڈ میں اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ عمران خان خود کیوں استعفے کا آپشن رکھتے جب انہوں نے بارہا کہا تھا کہ وہ استعفیٰ نہیں دیں گے۔

’اس بات کی کوئی تُک سمجھ نہیں آتی۔ عمران خان نے واضح طور پر تحریک عدم اعتماد کو غیر ملکی حکومت کی تبدیلی کی سازش کے طور پر مسترد کیا تھا۔ تو پھر وہ یہ آپشنز کیوں سامنے رکھیں گے، عجیب!‘


قومی اسمبلی کا اجلاس 16 اپریل 12 بجے ہوگا

قومی اسمبلی کا اجلاس کل 16 اپریل کو 12 بجے ہوگا، جس کا سرکلر بھی جاری کردیا گیا ہے۔ اجلاس کا پانچ نکاتی ایجنڈا بھی اس میں شامل ہے۔

اعلامیے کے مطابق اجلاس میں ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ ہوگی۔

اس حوالے سے آئین پاکستان کے آرٹیکل 53 اور قومی اسمبلی میں کاروائی اور طریق کار کے قائدہ 12 کی شق دو جس میں لکھا ہے: ’نوٹس موصولی کی تاریخ سے سات دن کے اختتام کے بعد پہلا یوم کار ہو‘، کے تحت بلایا گیا ہے۔

نئے سپیکر کا انتخاب بھی ایجنڈا پر موجود ہے۔ نومنتخب سپیکر بھی اپنے عہدے کا حلف بھی لیں گے۔ کیونکہ راجہ پرویز اشرف کے مقابلے میں کسی اور امیدوار نے کاغزات نامزدگی جمع نہیں کروائے اس لئے ایوان کے اندر ان کے منتخب ہونے سے متعلق باضابطہ اعلان کیا جائے گا جس کے بعد وہ عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔


راجہ پرویز اشرف بلامقابلہ سپیکر قومی اسمبلی منتخب

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما راجہ پرویز اشرف جمعے کو بلامقابلہ سپیکر قومی اسمبلی منتخب ہوگئے ہیں۔ ان کے مقابلے میں کسی اور جماعت سے کسی اسمبلی رکن نے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے تھے۔

انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار قرۃالعین شیرازی کے مطابق سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے سپیکر قومی اسمبلی کے لیے کاغذات نامزدگی آج جمع کرائے تھے۔ 

قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے ایک اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ پیپلزپارٹی کے راجہ پرویز اشرف بلامقابلہ سپیکر منتخب ہو گئے ہیں اور ان کے منتخب ہونے سے متعلق نوٹیفیکشن رولز کے مطابق جاری کیا جائے گا۔

راجہ پرویز اشرف کے کاغذات میں تجویز اور تائید کنندہ سید خورشید شاہ اور نوید قمر تھے۔

قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے مطابق قائم مقام سپیکر قاسم سوری نے 16 اپریل کو بلائے گئے اجلاس کا شیڈول تبدیل کیا تھا۔ سپیکر قومی اسمبلی کے الیکشن کے لئے شیڈول تبدیل نہیں ہوا اور شیڈول کے مطابق آج کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا آخری دن تھا اور کسی اور جماعت کی جانب سے سپیکر کے الیکشن کے لئے کسی نے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے۔

پارلیمانی ماہرین کے مطابق اگر سپیکر کے انتخاب کے لئے صرف ایک امیدوار سامنے آئے تو اسے بلا مقابلہ سپیکر تصور کیا جاتا ہے اور باضابطہ طور پر صرف نوٹفیکشن جاری ہی ہونا ہوتا ہے۔

ایک روز قبل قائم مقام سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے پاکستان تحریک انصاف کے 123 ارکان کے استعفوں کی منظوری کی تصدیق کر دی تھی۔

اس پر پارٹی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے استعفے دینے والے اراکین کا شکریہ ادا کیا تھا۔

مگر اس حوالے سے خبریں بھی سامنے آئیں تھیں کہ بعض پی ٹی آئی اراکین نے اسمبلی سیکریٹریٹ سے استعفے منظور نہ کرنے کی درخواست کی ہے۔

ان استعفوں کے معاملے پر جب سیکرٹری قومی اسمبلی سے استفسار کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ’یہ سپیکر کا اختیار ہے کہ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ استعفوں کے معاملے پر وہ مطمئن ہیں تو وہ منظور کر سکتے ہیں لیکن سیکرٹریٹ نے انہیں استعفوں کی تصدیق کرنے کی تجویز دی تھی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نو اپریل کو قومی اسمبلی میں اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے قبل تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے عہدہ چھوڑنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد پینل آف چیئر ایاز صادق نے سپیکر کی ذمہ داریاں انجام دی تھیں۔

بعدازاں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے بعد نئے وزیراعظم کے انتخاب کے لیے ہونے والی ووٹنگ کا بائیکاٹ کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما شاہ محمود قریشی نے اسمبلیوں سے استعفوں کا اعلان کیا تھا اور تمام اراکین سمیت ایوان سے باہر چلے گئے تھے۔

اس دوران قائم مقام ڈپٹی سپیکر قاسم سوری اپنے فائض انجام دیتے رہے۔

راجہ پرویز اشرف کون ہیں؟

راجہ ’رینٹل‘ کے نام سے اخبارات میں ماضی میں یاد کیے جانے والے راجہ پرویز اشرف پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنماؤں میں سے ایک ہیں۔

سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کا راولپنڈی کی تحصیل گوجر خان کے علاقے مندرہ سے تعلق ہے۔ البتہ ان کی پیدائش 1950 میں سانگھڑ میں ہوئی۔ گریجویشن کے بعد 1970 میں گوجر خان منتقل ہوئے۔

وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ 1988 سے منسلک ہیں۔ 2002 میں قومی اسمبلی کا انتخاب جیتنے کے بعد مرکزی سیاسی دھارے کا حصہ بنے۔

اس وقت کے وزيراعظم يوسف رضا گيلانی کی 2008 کی کابينہ ميں انہیں پانی و بجلی کا وفاقی وزير بنايا گيا۔ دسمبر 2009 تک ملک سے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا دعویٰ ان کے لیے کافی مہنگا ثابت ہوا۔

وزارت کے دوران ان پر بھاری رقوم بطور رشوت لینے کا الزام عائد ہوا جسے رینٹل پاور سکینڈل بھی کہا گیا۔

سال 2002 میں تاہم اسلام آباد کی احتساب عدالت نے راجہ پرویز اشرف اور دیگر ملزمان کو رینٹل پاور پلانٹ ریفرنس میں بری کر دیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان