فوج کے خلاف مہم: مشتبہ ملزم عدالت میں پیش

ایف آئی اے کی جانب سے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں موقف اپنایا گیا کہ ملزم نے مبینہ طور پر سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو عدم اعتماد کے ذریعے ہٹائے جانے کے بعد فوج اور فوجی سربراہ کے خلاف بدعنوانی کی مہم چلائی۔

مارچ 20، 2017 کو ایف آئی اے لاہور کی عمارت (فائل تصویر: اے ایف پی)

لاہور میں عدالت نے بدھ کو ایک ملزم کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے حوالے کیا ہے جن پر الزام  ہے کہ انہوں نے پاکستانی فوج کے سربراہ اور ادارے کے خلاف سوشل میڈیا (ٹوئٹر) پر نفرت انگیز مہم چلائی تھی۔

ایف آئی اے حکام نے بدھ کو شفقت مسعود عارف نامی ملزم کو عدالت میں پیش کیا۔

ایف آئی اے کی جانب سے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں موقف اپنایا گیا کہ ملزم نے مبینہ طور پر سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو عدم اعتماد کے ذریعے ہٹائے جانے کے بعد فوج اور فوجی سربراہ کے خلاف بدعنوانی کی مہم چلائی۔

ایف آئی اے نے کہا کہ ملزم سے مزید سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی چھان بین کرنا ہے ملزم کا 14 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا جائےتاہم عدالت نے دو روزہ ریمانڈ کی منظوری دے دی۔

ملزم کو ایف آئی اے نے منگل کو لاہور سے گرفتار کیا تھا۔

ایف آئی نے منگل کو سوشل میڈیا پرپاکستانی فوج سے متعلق مہم چلانے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا تھا اورپنجاب بھر سے کم از کم آٹھ افراد کو گرفتار کیا تھا جن کے بارے میں خیال ہے کہ وہ فوج کے خلاف مہم میں ملوث تھے۔

گرفتار افراد کے خلاف متنازعہ پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کی دفعات کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے۔

یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب قومی اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئی عدم اعتماد تحریک کے نتیجے میں 10 اپریل کو عمران خان کی حکومت ختم ہوئی اس کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر فوج اورآرمی چیف کے خلاف توہین آمیز مہم شروع کرنے کے بعد ایف آئی اے کا انسداد دہشت گردی ونگ حرکت میں آیا۔

ایف آئی نے عدالت میں بتایا کہ اتوار سے ٹوئٹر پر سب سے زیادہ ٹرینڈنگ والے ہیش ٹیگز تھے جو فوج، عدلیہ اور نئی حکومت کو تنقید کانشانہ بنا رہے تھے اور منگل کو ان ہیش ٹیگز کو استعمال کرنے والی ٹویٹس کی تعداد 43 لاکھ تک پہنچ گئی۔

فوج اور عدلیہ کے خلاف سوشل میڈیا مہم کے سلسلے میں لاہور، ملتان، فیصل آباد اور گجرات سمیت پنجاب کے مختلف حصوں سے تقریباً آٹھ مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

ایف آئی اے کے ایک افسرنے انڈپینڈنٹ اردو  بتایا کہ آنے والے دنوں میں مزید گرفتاریاں متوقع ہیں۔ اور گرفتار مزید ملزمان سے بھی سوشل میڈیا پر رابطوں بارے پوچھ گچھ جاری ہے مگر ابھی یہ نہیں بتایا جاسکتا کہ مہم چلانے والا گروپ کہاں سے آپریٹ ہو رہا ہے اور ان کا کس سے تعلق ہے۔

پیر کو پاکستان فوج کے حکام کے اجلاس میں سوشل میڈیا پر ادارے پر کی جانے والی حالیہ تنقید کا بھی نوٹس لیا گیا تھا۔

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے منگل کوجاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ فورم نے کچھ حلقوں کی جانب سے فوج کو بدنام کرنے اورادارے اور معاشرے کے درمیان تقسیم پیدا کرنے کے لیے حالیہ پروپیگنڈہ مہم کا نوٹس لیا ہے۔

گرفتار کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ:

تحریک انصاف کے رہنماؤں کی جانب سے ایسے سوشل میڈیا کارکنان کی رہائی کا مطالبہ کیا جارہا ہے جنہیں نفرت انگیز مہم چلانے پر گرفتار کیا ہے۔

پی ٹی آئی کے رہنما سینیٹر اعجاز چوہدری نے اپنی پارٹی کے کارکنوں اور حمایتیوں کی گرفتاری پر انہیں قانونی مدد سے متعلق رابطوں کے لیے رابطہ نمبر بھی جاری کیے گئے ہیں۔

دوسری جانب ایک اور صحافی احسن اعوان نے ٹوئٹر پر دعویٰ کیا کہ ان کو کچھ لوگ ان کے گھر سے تحقیقات کے لیے اٹھا کر لے گئے مگر ان کے خلاف کچھ نہ ملنے پر چھوڑ دیا گیا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے جنوبی ایشیا کے ریسرچ ڈائریکٹر، دنوشکا ڈسانائیکے نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے، ’پاکستانی حکام کو ایسے لوگوں کو سزا دینے کے لیے سخت پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کا استعمال بند کرنا چاہیے جو محض آن لائن اظہار رائے کی آزادی کے اپنے حق کا استعمال کر رہے ہیں۔ بہت طویل عرصے سے، یکے بعد دیگرے حکومتوں نے اس قانون کو پرامن اختلاف کو کچلنے اور سیاسی مخالفت کے حامیوں کو دھمکانے کے لیے استعمال کیا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ کسی کو محض اپنے خیالات کا اظہار کرنے پر گرفتار نہیں کیا جانا چاہیے- چاہے آن لائن ہو یا آف لائن ہو۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے جنوبی ایشیا کے ریسرچ ڈائریکٹر نے کہا کہ پنجاب بھر میں گرفتار کیے گئے آٹھ افراد کو فوری اور غیر مشروط رہا کیا جائے۔ اختلافی آوازوں کودبانے کے لیے اپنی کوششیں تیز کرنے کے بجائے پاکستانی حکام کو آزادی اظہار کے حق پر اپنا جابرانہ کریک ڈاؤن ختم کرنا چاہیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پس منظر

ایمنسٹی انٹر نیشنل کے عہدیدار کے مطابق 13 اپریل کو ایف آئی اے نے پنجاب بھر سے آٹھ افراد کو گرفتار کیا۔ ایف آئی اے کی جانب سے سوشل میڈیا کے کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کرنے کے بعد یہ گرفتاریاں عمل میں آئیں جن کے بارے میں ایجنسی کا خیال ہے کہ وہ ریاستی اداروں کے خلاف ایک متنازع مہم میں ملوث تھے۔

9  اپریل کو پاکستانی پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد عمران خان کو ملک کے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔

عمران خان اور ان کی جماعت، پاکستان تحریک انصاف، الزام عائد کرتی ہے کہ ان کی برطرفی امریکہ اور اپوزیشن کےدرمیان ملی بھگت کا نتیجہ تھی، جس سے ان کے حامیوں کی جانب سے ملک گیر احتجاج کا آغاز ہوا۔ پارٹی کی سوشل میڈیا ٹیم نے تب سے ٹوئٹر پر ایک مہم شروع کی ہے جس میں فوج، عدالتوں اور ملک کی نئی قیادت کی مذمت کی گئی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان