پیکا ایکٹ: ’سیاسی جماعتیں سوشل میڈیا ٹیمیں بنا کرکیوں ڈرتی ہیں؟‘

اسلام آباد ہائی كورٹ نے كہا ہے كہ پریوینشن آف الیکٹرونک کرائمز (پیکا) ایكٹ میں حالیہ ترامیم ایک ایسی سیاسی جماعت نے كیں جس كی اپنی طاقت ہی سوشل میڈیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کا ایک منظر (اے ایف پی فائل فوٹو)

اسلام آباد ہائی كورٹ كے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے جمعرات کو كہا ہے كہ پریوینشن آف الیکٹرونک کرائمز (پیکا) ایكٹ میں حالیہ ترامیم ایسی سیاسی جماعت نے كیں جس كی اپنی طاقت ہی سوشل میڈیا تھا۔ 

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے 20 فروری کو پیکا ترمیمی صدارتی آرڈیننس جاری کیا تھا جس کے تحت پیمرا کے لائسنس یافتہ ٹی وی چینلز کو حاصل استثنیٰ ختم کر دیا گیا ہے۔ ترمیم کی تشریح کی مطابق آرڈیننس کے تحت حکومتی اداروں یا شخصیات پر تنقید کا جرم ناقابلِ ضمانت ہوگا۔ 

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے آج پیکا ایکٹ میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ترمیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت كرتے ہوئے كہا كہ جو كچھ سوشل میڈیا پر ہو رہا ہے اس كی ذمہ دار سیاسی جماعتیں اور ان كے ورکرز ہیں۔  

اٹارنی جنرل آف پاكستان خالد جاوید خان پیكا آرڈیننس كے خلاف درخواستوں میں دلائل دینے كے لیے آج عدالت میں پیش ہوئے۔

دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل كو مخاطب كرتے ہوئے كہا: ’جب سیاسی جماعتیں اپنی سوشل میڈیا ٹیمیں بناتی ہیں تو پھر وہ اختلاف رائے سے کیوں ڈرتی ہیں؟‘ 

انہوں نے افسوس كا اظہار كرتے ہوئے كہا کہ حکومت کےخلاف آواز اٹھانے والوں کےخلاف کاروائیاں کی گئیں ہیں اور یہ لگ ہی نہیں رہا تھا کہ جمہوری ملک میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ 

انہوں نے سوال اٹھایا كہ سركاری اداروں کا بنیادی حق نہیں ہوتا، اور کیا وہ اس (قانون) میں کیسے آسکتے ہیں۔

انہوں نے مزید كہا كہ حكومت سول قوانین کو زیادہ بہتر بنائے تاکہ ہتک عزت كے قانون كا فیصلہ 90 دن میں ہوسكے اور عدالت اس میں مدد كرے گی۔  

ایک موقعے پر انہوں نے كہا: ’عدالت کے سامنے واحد سوال یہ ہے کہ پیكا آرڈیننس كے سیکشن 20 کوکیوں نہ کالعدم قرار دیا جائے؟‘ 

اس پر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے كہا كہ ایسا كرنا عدالت كا اختیار ہے، تاہم انہوں نے كہا كہ ان كے خیال میں سیكشن 20 غیرآئینی نہیں ہے۔   

انہوں نے كہا كہ قانون کے غلط استعمال کو دیکھنا ہوگا اور ہر قانون کے کچھ ضابطے ہونے چاہیے۔   

انہوں نے مزید كہا كہ وہ اس قانون كے دفاع کے لئے تیار ہیں، تاہم یہ بات بھی كہتے ہیں کہ ضابطے ہونے چاہیے۔ 

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان كا كہنا تھا: ’میرے ذہن میں ایک منصوبہ ہے اور اس سلسلے میں وزیر اعظم عمران خان سے بھی ملاقات ہوئی ہے۔‘

انہوں نے مزید كہا كہ دنیا كے بہت سےملكوں نے ہتک عزت کے قوانین کو ڈی کریمنالائز نہیں کیا۔ 

انہوں نے خاتون اول پر سوشل میڈیا پر كی جانے والی تنقید كا حوالہ دیتے ہوئے سوال اٹھایا: ’کسی پردے دار خاتون سے متعلق كہنا كہ وہ جادو ٹونہ كرتی ہیں یا ان كی چھت پر گوشت پڑا ہے تو یہ كہاں كی آزادئ اظہارِ رائے

ہے؟‘

اٹارنی جنرل نے كہا كہ جنہوں نے مذكورہ قانون بنایا تھا انہوں نے بھی اس کو چیلنج کیا ہے۔ اس موقعے پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے كہا كہ پارلیمان كے ایوان بالا میں حزب اختلاف كی اكثریت ہے، ان كے پاس اختیار ہے وہاں قانون كو مسترد كیا جا سكتا ہے۔  

’سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ جا کر اپنا کردار ادا کریں، عدالت پارلیمنٹ کا احترام کرتی ہے، اس لیے سیاسی جماعتوں کی درخواستوں پر کارروائی نہیں کریں گے۔‘  

ایک دوسرے موقعے پر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان كا كہنا تھا كہ كیا کسی کی خواب گاہ کی ویڈیو بنا کر وائرل کرنا یاجعلی وڈیو اپلوڈ کرنا ٹھیک عمل ہو سكتا ہے؟  

چیف جسٹس اطہر من اللہ اٹارنی جنرل كو مخاطب كرتے ہوئے كہا: ’آپ پیکا ایکٹ میں ترمیم سے قبل کا سیکشن 20 بھی دیکھ لیں۔‘ 

انہوں نے كہا كہ عدالت کے سامنے جتنے کیسز آئے ہیں ان میں ایف آئی اے نے پبلک آفس ہولڈرز کے اختیارات کا غلط استعمال کیا۔ 

’آپ ایف آئی اے کو یہ اختیار دے رہے ہیں کہ وہ شکایت پر کسی کو پکڑ لے اور ٹرائل تک وہ شخص اندر رہے۔‘  

انہوں نے كہا كہ مذكورہ قانون ایک ڈریكونین لا ہے، جسے نیب كے قانون سے بھی بدتر كر دیا گیا ہے اور اس کے ذریعے تو سیلف سینسر شپ کی جا رہی ہے۔   

’اس کے بعد تو لوگوں نے ڈر کے مارے کچھ کرنا ہی نہیں ہے۔‘

’70 سال سے ملک کو یہاں لایا اور اب ڈرتے ہیں کوئی بات نہ کرے‘

انہوں نے کہا۔ ’حكومت نے ایف آئی اے کو کس کام پر لگا دیا گیا ہے؟ ایف آئی اے کو پبلک آفس ہولڈرز کی ذاتی ساکھ کی حفاظت پر لگا دیا گیا ہے۔‘   

انہوں نے مزید كہا كہ اس سے زیادہ بدمعاشی کیا ہو سکتی ہے کہ اس کورٹ اور سپریم کورٹ کے سامنے ایس او پیز پیش کیے مگرعمل نہیں کیا گیا۔ 

چیف جسٹس نے كہا كہ لاہورکے دو صحافیوں کو جس طریقہ سے اٹھایا گیا، انہیں بتایا بھی نہیں گیا کہ ایسا کیوں کیا گیا ہے اور جب دریافت كیا گیا تو كہا كہ شکایت موصول ہوئی تھی۔ 

انہوں نے كہا كہ ایف آئی اے نے صحافی محسن بیگ کے گھر پر چھاپہ مار کر لیپ ٹاپ وغیرہ اٹھا لیے۔  

انہوں نے مزید كہا كہ ایک صحافی کو اپنے وی لاگ میں کتاب کا حوالہ دے کرماضی بیان کرنے پر گرفتار کیا گیا، تو كیا اب کوئی پچھلی باتیں بھی بیان نہیں کرسکتا؟  

چیف جسٹس اطہر من اللہ كا كہنا تھا: ’70 سال ملک کو اس جگہ لایا گیا ہے، اور اب ڈرتے ہیں کہ کوئی بات بھی نہ کرے۔ ‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے كہا كہ برطانیہ میں بادشاہت كو بچانے کے لئے ہتک عزت کے قانون کو کریمنالائز کیا گیا تھا، لیكن بعد میں ختم کر دیا گیا۔ 

اس موقع پر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان كا كہنا تھا كہ برطانیہ میں تو احتساب عدالتیں بھی نہیں ہیں اور وہاں کے حکمران بعد میں کہیں بھاگ بھی نہیں جاتے۔   

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے كہا كہ وہ نیب کے قانون میں بھی گرفتاری کے اختیار کے خلاف تھے۔ 

انہوں نے وضاحت كرتے ہوئے كہا كہ پیكا قانون كا اطلاق سیاسی تقاریر پر نہیں ہوگا۔ 

اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے دریافت كیا: ’آپ یہ بات واضح کریں کہ کسی تقریر پر اس کا اطلاق نہیں ہو گا۔ 

انہوں نے كہا كہ پبلک باڈیز یا اداروں کا کون سا بنیادی حق ہوتا ہے؟ انہیں توتنقید سے گھبرانا ہی نہیں چاہیے۔ 

'اس آرڈیننس کو پڑھیں تو نظرآتا ہے کہ یہ آئین کے آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی ہے۔'   

انہوں نے اٹارنی جنرل سے دریافت كیا: ’یہ بھی بتائیں کہ ایسی کیا جلدی تھی کہ آرڈیننس لے کر آئے؟ ‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس موقع پر عبدالطیف كھوسہ نے كہا كہ اس دن قومی اسمبلی کا اجلاس ہونا تھا جسے ملتوی کیا گیا اور آرڈیننس لایا گیا۔ 

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے كہا كہ یوگینڈا میں بھی ہتک عزت کو فوجداری قانون سے نکال دیا گیا ہے۔ 

اٹارنی جنرل نے كہا كہ بیلجیئم، جرمنی، آئس لینڈ میں یہ ہتک عزت کا جرم کریمنالائزڈ ہے، جس پر چیف جسٹس نے انہیں وہاں كی عدالتوں كے فیصلے پڑھنے كا مشورہ دیا۔ 

چیف جسٹس نے دریافت كیا كہ كیا كسی حزب اختلاف كے ركن كی شكایت پر كسی حکومتی رکن نے كو گرفتار كیا جائے گا؟  

 لطیف كھوسہ نے كہا: ’(تحریک انصاف) روز سیاستدانوں کو چور ڈاکو کہتے ہیں‘ 

اس پر اٹارنی جنرل نے كہا كہ ایسا نہیں كہا جانا چاہیے، جو چور ہوں انہیں بھی نہیں۔ 

جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل كو مخاطب كرتے ہوئے كہا: 'اٹارنی جنرل صاحب آپ کے لیے بہت مشکل ٹاسک ہے، جو بھی حكومت میں ہو آزادی اظہار رائےكو پسند نہیں كرتا۔ 

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مزید كہا كہ اگر اظہار رائے کی آزادی پر قدغن نہ ہوتی تو یہ ملک نہ ٹوٹتا اور ’عدالت كبھی اجازت نہیں دے گی کہ ایف آئی اے بدمعاش ایجنسی بنے۔

'دنیا کہاں جا رہی ہے؟ ہم بھی تو اقوام متحدہ کا حصہ ہیں، آپ کو کیا ضرورت ہے کہ جوڈیشری کی عزت کے لئے قانون بنائیں؟‘

انہوں نے كہا كہ اس عدالت نے تو توہین عدالت کو بھی کافی حد تک کمزور کر دیا ہے، اگرعوام کا اعتماد ہو تو عدلیہ یا پبلک آفس ہولڈرز کو نہیں ڈرنا چاہیے۔ 

انہوں نے كہا كہ اگر سیاسی جماعتوں كو سوشل میڈیا پر تحفظات ہیں اور معاشرے کو سدھارنا ہے تو انہیں اپنے فالورز کو سمجھانا چاہیے۔   

اٹاربنی جنرل خالد جاوید خان نے دلائل كے لیے ایک ہفتے كی مہلت مانگی، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے دریافت كیا كہ اگر اس دوران ایف آئی اے کوئی گرفتاری کرے گی۔ 

اٹارنی جنرل نے كہا كہ اس سلسلے میں عدالت كا حكم پہلے سے موجود ہے جس كی توسیع بھی كی جا سكتی ہے۔  

اٹارنی جنرل نے كہا: ’اگر ایف آئی  اے نے ایسا کیا تو میں کورٹ میں نہیں آؤں گا۔‘  

انہوں نے كہا كہ ترمیمی آرڈیننس کے اثرات اور نتائج سے متعلق وہ کابینہ اراكین سے ڈسکس كریں گے۔ 

 پیکا ترمیم میں سزا

ترمیم کی تشریح کی مطابق آرڈیننس کے تحت حکومتی اداروں یا شخصیات پر تنقید کے جرم میں پولیس گرفتار کرکے حوالات میں بند کرے گی اور چھ ماہ میں مقدمے کا فیصلہ ہوگا۔

ٹرائل کورٹ ہر ماہ کیس کی تفصیلات ہائی کورٹ میں جمع کرائے گی اور جان بوجھ کر جعلی خبر پھیلانے کاعلم ہونے کے باوجود غلط معلومات نشر کرنے پر کسی شخص کی ساکھ یا نجی زندگی کو نقصان پہنچانے کا جرم ثابت ہوگیا تو زیادہ سے زیادہ پانچ سال تک کی سزا ملے گی اور10 لاکھ روپے جرمانہ بھی ہوگا۔ 

ترمیمی ایکٹ میں فریق کی تعریف بھی شامل کردی گئی ہے، حکومتی قوانین سے قائم کی گئی کوئی بھی کمپنی، ایسوسی ایشن، ادارہ، تنظیم، اتھارٹی شامل ہوگی جبکہ متاثرہ شخص کے ساتھ ساتھ اس کا مجاز نمائندہ یا سرپرست بھی شکایت کر سکے گا۔ 

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان