سپیکر قومی اسمبلی کے لیے استعفے پہلا اور اہم چیلنج

سردار ایاز صادق نے ایوان كی كارروائی كے دوران نو منتخب سپیكر راجہ پرویز اشرف كو تحریک انصاف كے استعفوں كی جانچ پڑتال كا مشورہ دیا ہے۔

16 اپریل 2022 کی اس تصویر میں سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نومنتخب سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف سے حلف لیتے ہوئے(تصویر: قومی اسمبلی پاکستان ویب سائٹ)

سپیكر قومی اسمبلی منتخب ہونے كے فورا بعد راجہ پرویز اشرف نے پاكستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) كے 123 اراكین كے استعفوں سے متعلق فیصلہ قانون اور سابقہ سپیكرز كی رولنگز كی روشنی میں كرنے كا اعلان كیا ہے۔

پاكستان پیپلز پارٹی كے رہنما راجہ پرویز اشرف كے لیے پی ٹی آئی كے اراكین قومی اسمبلی كے استعفوں كا معاملہ پہلا اور بڑا چیلنج بنتا ہوا نظر آ رہا ہے۔

گذشتہ تین عشروں سے پارلیمانی رپورٹنگ كرنے والے صحافی ایم بی سومرو كے خیال میں نو منتخب سپیكر كو استعفوں كے معاملے میں بہرصورت چیلنج درپیش ہوگا۔ 

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے كہا: ’سپیكر تحریک انصاف والوں كے استعفے منظور كریں یا نہ كریں، دونوں صورتوں میں یہ ان كے لیے چیلنج ہو گا۔‘

سیاسی تجزیہ كار حسن عسكری كے خیال میں پی ٹی آئی کے ممبران قومی اسمبلی کے استعفوں كی صورتحال 2014۔2015 جیسی بنتی جا رہی ہے جب پی ٹی آئی كے اراكین نے قومی اسمبلی سے استعفے دیے تھے لیكن سپیكر سردار آیاز صادق نے انہیں لمبے عرصے تک منظور نہیں كیا تھا۔

یاد رہے كہ پاكستان پیپلز پارٹی سے تعلق ركھنے والے سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف ہفتے كو قومی اسمبلی كے 22 ویں سپیكر كی حیثیت سے بلا مقابلہ منتخب ہوئے۔

منتخب ہونے كے بعد سپیكر راجہ پرویز اشرف نے پہلی رولنگ پی ٹی آئی كے اراكین كے استعفوں سے متعلق دی۔

استعفوں كا معاملہ

نو اپریل كو سابق وزیراعظم عمران خان كے خلاف تحریک عدم اعتماد كی كامیابی كے فورا بعد پاكستان تحریک انصاف نے قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے كا اعلان كیا تھا۔

سابق وزیر خارجہ اور تحریک انصاف كے رہنما شاہ محمود قریشی نے (11 اپریل كو) اپنی جماعت كے 123 ایم این ایز كے استعفے ڈپٹی سپیكر قاسم خان سوری كے پاس جمع كروا دیے تھے۔

تحریک انصاف سے تعلق ركھنے والے بلوچستان کے ركن قومی اسمبلی قاسم خان سوری نے بحیثیت قائم مقام سپیكر استعفوں كو منظور كرنے میں زیادہ وقت ضائع نہیں كیا اور اس سلسلے میں 13 اپریل كو ہی نوٹیفكیشن جاری كر دیا تھا۔

سپیكر قومی اسمبلی اسد قیصر كے نو اپریل كو استعفے كے بعد ڈپٹی سپیكر قاسم خان سوری نے خود مستعفی ہونے تک قائم مقام سپیكر كی حیثیت سے ذمہ داریاں ادا كیں، جس كے بعد راجہ پرویز اشرف كے انتخاب تک پاكستان مسلم لیگ نواز كے سردار ایاز صادق قومی اسمبلی كے اجلاسوں كی صدارت كرتے رہے۔

ہفتے كو قومی اسمبلی كے اجلاس میں سردار ایاز صادق نے ایوان كی كارروائی كے دوران نو منتخب سپیكر راجہ پرویز اشرف كو تحریک انصاف كے استعفوں كی جانچ پڑتال كا مشورہ دیا۔

سردار ایاز صادق نے جو 2014-15 میں تحریک انصاف كے استعفوں كے وقت قومی اسمبلی كے سپیكر تھے دعوی كیا كہ پی ٹی آئی كے بعض ایم این ایز نے انہیں فون كر كے استعفی نہ دینے كی خواہش كا اظہار كرچكے ہیں۔

اس پر سپیكر راجہ پرویز اشرف نے اسمبلی سیكریٹیریٹ كو پی ٹی آئی اراكین كے موصول ہونے والے استعفے ان كو پیش كیے جانے اور ان پر اسمبلی رولز اور روایات كے مطابق عمل كرنے كی ہدایات جاری كیں۔ 

جمیعت علما اسلام فضل الرحمن كے پارلیمانی لیڈر اسد الرحمن نے بھی ہفتے كو ایوان سے خطاب میں نو منتخب سپیكر راجہ پرویز اشرف كو تاکید کی کہ تحریک انصاف كے جن اراكین كے استعفے موصول ہوئے ہیں انہیں فردا فردا بلا كر تصدیق كا عمل یقینی بنایا جائے۔

یاد رہے كہ قومی اسمبلی میں پاكستان تحریک انصاف كے 154 اراكین میں سے 123 كے استعفے اسمبلی سیكریٹیریٹ تک پہنچے تھے جبكہ 28 منحرف اراكین اس سے قبل ہی عمران خان كی جماعت چھوڑ كر پی ٹی آئی كی مخالف جماعتوں كے ساتھ مل چكے ہیں۔

ہفتے كو قومی اسمبلی كے اجلاس میں پی ٹی آئی كے 28 منحرف اراكین كے علاوہ پاكستان مسلم لیگ قائد اعظم كے چار منحرف، جی ڈی اے كے تین، اور جماعت اسلامی كے ایک ایم این اے حزب اختلاف كی نشستوں پر بیٹھے تھے۔

پاكستان تحریک انصاف نے اگست 2014 میں بھی قومی اسمبلی سے استعفے دیے تھے، تاہم اس وقت كے سپیكر سردار آیاز صادق نے ان كی منظوری كو آٹھ ماہ تک ملتوی ركھا۔ 

بعد ازاں استعفے جمع كروانے والے تحریک انصاف كے تمام ایم این ایز نے ایوان میں بیٹھنے کا فیصلہ كیا تھا۔ 

بڑا چیلنج

تجزیہ كار حسن عسكری كا كہنا تھا كہ استعفوں كا معاملہ نو منتخب سپیكر قومی اسمبلی كے لیے ایک بڑا چیلنج ہو گا، تاہم ان كے خیال میں دیكھنا ہو گا كہ سپیكر كی نیت كتنی ٹھیک یا خراب ہے۔

’اگر تو ان كی نیت خراب ہے تو وہ اس چیلنج كو مزید گمبھیر بنا دیں گے اور دوسری صورت میں انہیں استعفے قبول كرنے ہوں گے۔‘

صحافی ایم بی سومرو كے خیال میں استعفوں كا قبول كیا جانا سیاسی نقصان كا باعث بن سكتا ہے جبكہ ایسا نہ كیا گیا تو مخالف پارٹی (تحریک انصاف یا مستعفی ہونے والے اراكین) عدالت كا رخ كرسكتے ہیں۔

’وقت ثابت كرے گا كہ سپیكر صاحب استعفوں كے معاملے میں سیاسی فیصلہ كرتے ہیں یا رولز كے مطابق فیصلے كرتے ہیں۔‘

انہوں نے كہا كہ قاسم خان سوری نے بحیثیت قائم مقام سپیكر قومی اسمبلی استعفوں سے متعلق كے قواعد و ضوابط پر عمل نہیں كیا اور اسی لیے نو منتخب سپیكر كو اس كا فیصلہ كرنا پڑ رہا ہے۔

انہوں نے كہا كہ قانون پر عمل كے معاملے میں سیاسی فوائد مدنظر نہیں ہونا چاہییں اور ایسا ہوا تو یہ قانون كے ساتھ كھلواڑ تصور ہو گا۔ 

پی ٹی آئی ایم این ایز مستعفی ہوں گے؟ 

مبصرین اور تجزیہ كاروں كے خیال میں پاكستان تحریک انصاف كے اكثر اراكین قومی اسمبلی ان كی ركنیت ختم ہونے كے حق میں نہیں ہیں اور اسی لیے دو درجن سے زیادہ ایم این ایز جماعت سے منحرف ہو چكے ہیں۔ 

ایم بی سومرو كا كہنا تھا كہ پاكستان تحریک انصاف نے جن اراكین كے استعفے قومی اسمبلی میں جمع كیے ہیں ان میں سے بعض ایوان كو چھوڑنے كے حق میں نہیں ہیں۔

انہوں نے كہا كہ سردار آیاز صادق كا ایوان میں اس متعلق بیان اہمیت كا حامل ہے۔ ’انہوں نے كھلے عام كہا كہ تحریک انصاف كے بیشتر ایم این ایز نے انہیں فون كر كے استعفوں كی صحت سے انكار كیا ہے۔‘

ایم بی سومرو كے خیال میں ’اكثر پی ٹی آئی اراكین جماعت كے سربراہ عمران خان كی وجہ سے كھلے عام استعفوں كی مخالفت نہیں كر پا رہے۔‘

انہوں نے كہا كہ جمع ہونے و الے استعفوں كی جانچ پڑتال یا ویریفكیشن كی صورت میں اكثر اراكین اپنے استعفوں یا اپنے دستخطوں كی تصدیق نہیں كریں گے۔ 

حسن عسكری كے خیال میں سپیكر جمع ہونے والے استعفوں كی منظوری میں تاخیر جان بوجھ كریں گے تاكہ كچھ مزید لوگ منحرف ہو كر مخالف سمت میں چلیں جائیں۔ 

’اصولاً سپیكر كو استعفے فورا منظور كر كے الیكشن كمیشن كو بھیج دینا چاہیے تاكہ مذكورہ نشستیں خالی ہو سكیں۔‘

استعفی دینے كا طریقہ 

 ركن قومی اسمبلی دستور كے آرٹیكل 64 كے تحت اپنے ہاتھ سے لكھا ہوا استعفی جمع كر كے اپنی ركنیت ختم كروا سكتا ہے، تاہم اسمبلی كے قواعد كی شق 43 میں واضح طور پر درج ہے كہ سپیكر كو استعفے اور ركن كے دستخط كے اصلی اور رضاكارانہ ہونے سے متعلق اطمینان كرنا ہو گا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایم بی سومرو كا كہنا تھا كہ اسمبلی قواعد كے تحت كسی ركن كے استعفے كا رضاكارانہ ہونا، ركن كے اپنے ہاتھ سے لكھا ہونا، اور ركن كا دستخط كی بقلم خود تصدیق كرنا ضروری ہیں۔ 

اسمبلی قواعد اور روایات كے تحت سپیكر استعفے دینے والے اراكین قومی اسمبلی كو فردا فردا بلا كر ان سے استعفوں اور ان كے دستخطوں كے اصلی اور رضاكارانہ ہونے سے متعلق دریافت كر سكتے ہیں، اور سپیكر اپنے اطمینان كے بعد ہی استعفے منظور كر سكتے ہیں۔ 

سپیكر كے عدم اعتماد كی صورت میں استعفی مسترد بھی كیا جا سكتا ہے۔ 

ایم بی سومرو نے كہا كہ اسمبلی سیكرٹیریٹ نے تحریک انصاف كے 123 اراكین كے استعفے اسی لیے الیكشن كمیشن كو نہیں بھیجے كیونكہ قاسم سوری نے قواعد كے مطابق منظوری نہیں كی تھی۔ 

راجہ پرویز اشرف 

قومی اسمبلی كے نومنتخب سپیكر راجہ پرویز اشرف كا تعلق پاكستان پیپلز پارٹی سے ہے، جبكہ جن كا تعلق پنجاب كے ضلع راولپنڈی كے علاقے گوجر خان سے ہے، تاہم وہ (1950 میں) صوبہ سندھ كے ضلع سانگھڑ میں پیدا ہوئے، جہاں ان كے والدین كی زرعی زمینیں ہیں۔ 

راجہ پرویز اشرف، جو روانی سے سندھی زبان بول سكتے ہیں، پاكستان پیپلز پارٹی كی لیڈر شپ كے كٹر وفادار ہیں، اور اسی لیے سمجھا جاتا ہے كہ تحریک انصاف كے اراكین كے استعفوں سے متعلق وہ پی پی پی كی پالیسی سے متاثر ہو سكتے ہیں۔ 

راجہ پرویز اشرف پاكستان كے وزیر اعظم اور دو مرتبہ وفاقی وزیر رہ چكے ہیں، جبكہ ان پر كرپشن كے كیسز بھی چلے جو بعد ازاں عدالت نے خارج كر دیے تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست