ضلع ہنگو کے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کی جیت

نتائج کے مطابق کُل 210 پولنگ سٹیشنوں پر پی ٹی آئی 20 ہزار 772 ووٹوں کے ساتھ جیت چکی ہے، جب کہ جے یوآئی 18 ہزار 244 ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر اور عوامی نیشنل پارٹی تین ہزار 314 ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔

ضلع ہنگو میں حلقہ این اے 33 کی یہ نشست پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار حاجی خیال زمان کے انتقال کے بعد خالی ہوئی تھی (فوٹو: الیکشن کمیشن خیبر پختونخوا)

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ہنگو میں حلقہ این-اے33 پر ہونے والے  قومی اسمبلی کےضمنی الیکشن کے غیرحتمی وغیرسرکاری نتائج کے مطابق پاکستان تحریک انصاف جیت چکی ہے۔

نتائج کے مطابق کُل 210 پولنگ سٹیشنوں پر پی ٹی آئی 20 ہزار 772 ووٹوں کے ساتھ جیت چکی ہے، جب کہ جے یوآئی 18 ہزار 244 ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر اور عوامی نیشنل پارٹی تین ہزار 314 ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ 

نتائج سے متعلق تحریک انصاف کے رہنما حماد اظہر نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر لکھا کہ ’یہ جانتے ہوئے بھی کہ تحریک انصاف کا امیدوار اگر جیت گیا تو فوراً استعفی دے گا، ہنگو کے محب وطن لوگوں نے پھر بھی اسے کامیاب کروایا۔‘

واضح رہے کہ ضمنی انتخابات میں صوبائی حکومت جس پارٹی کی ہو اس کا پلڑا عموما بھاری رہتا ہے۔

ضلع ہنگو میں آج 17 اپریل کو ہونے والے  قومی اسمبلی کےضمنی انتخابات تحریک انصاف کے حاجی خیال زمان جو کہ 2018 کے عام انتخابات میں فاتح قرار پائے تھے، کے انتقال پر دوبارہ کروائے گئے، جس میں ان کے بیٹے ڈاکٹر ندیم خیال ان کی نشست کے امیدوار تھے۔ ان کے مد مقابل چار امیدواروں میں جے یو آئی کے مفتی عبیداللہ، اے این پی کے سید عمر اورکزئی، جب کہ آزاد امیدواروں میں عتیق احمد اور سعید مفکر حصہ لے رہے تھے۔

اگرچہ خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع کو جمعیت علمائے اسلام ف کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور جہاں سے تقریباً ہر انتخاب میں یہ جماعت نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے، تاہم 2018 کے عام انتخابات میں  پی ٹی آئی ان کی دوسری مضبوط سیاسی حریف جماعت  بن گئی ہے۔

ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال، اور پی ٹی آئی کے استعفوں کے بعد ہنگو کے اس الیکشن کو مبصرین دلچسپ اور اہم قرار دے رہے تھے۔

ڈاکٹر ندیم خیال جو کہ این اے 33 پر اپنے والد کی جگہ امیدوار تھے، سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے یہ سوال کیا کہ ایسی صورتحال میں جب وفاق میں ان کی حکومت نہیں رہی ہے اور استعفے دے دیے گئے ہیں تو ان کا جیتنا ایسے حالات میں کیا معنی رکھتا ہے۔ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان کی پہلی ترجیح فی الحال الیکشن جیتنا ہے۔

’جب الیکشن ہم جیت لیں گے اس کے بعد عمران خان طے کریں گے کہ آگے کیا کرنا ہے۔لیکن یہ ضروری بھی نہیں کہ الیکشن جیت کر ہم استعفی دیں۔ میں قطعی طور پر فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتا۔‘

ڈکٹر ندیم نے بتایا  ’ٹرن آؤٹ کم ہونے کی ایک وجہ  رمضان اور دوسری یہ ہے کہ ابھی عام انتخابات جیسا ماحول نہیں ہے، جس میں لوگوں کی دلچسپی عروج پر ہوتی ہے۔‘

پی ٹی آئی کے امیدوار کا مزید کہنا ہے کہ نہ صرف یہ کہ لوگوں کی ہمدردی ان کی سیاسی جماعت کے ساتھ ہے بلکہ ضلع ہنگو میں تحریک انصاف کے ارکان قومی وصوبائی اسمبلی نے ترقیاتی کام بھی بہت کیا ہے۔

الیکشن کمیشن خیبر پختونخوا دفتر کے مطابق، ضلع ہنگو میں کُل 210 پولنگ سٹیشن قائم کیے گئے تھے، جب کہ یہاں مجموعی طور پر رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد تین لاکھ 18 ہزار 900 بتائی گئی۔

موجودہ ملکی صورتحال کے نتیجے میں پی ٹی آئی کی پوزیشن

پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے کے بعد ان کی برطرفی کے بعد انہوں نے جیسے ہی عوام کو باہرنکلنے اور احتجاج کی کال دی، تب سے ملک میں مظاہروں، جلسوں اور احتجاجوں کا سلسلہ جاری ہے۔

اقتدار کا خاتمہ ہونے کے بعد عمران خان کا پہلا جلسہ پشاور میں منعقد ہوا، جس میں رمضان کے مہینے بھی ایک بہت بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اگرچہ پی ڈی ایم اور ان کے حامی اس تعداد کو کم کرکے بتاتی ہے لیکن صوبے کے اندر ہونے والے غیرجانبدار حلقوں میں اس کو غیرمعمولی قرار دے رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ضلع خیبر کے تحصیل باڑہ سے تعلق رکھنے والے سیاسی نوجوان کارکن طارق آفریدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پاکستان تحریک انصاف2018، 2019 حتی کہ 2020 میں بھی خاموش ، ساکت اور جذبہ سے خالی ہوچکی تھی لیکن  صرف ایک ماہ کے اندر  جو تبدیلی آئی ہے اس نے انہیں حیران کر دیا ہے۔‘

’یوں لگتا ہے جیسے پورا قبائلی علاقہ پاکستان تحریک انصاف کے حق میں ہے۔ گزشتہ روز باڑہ میں جو احتجاج ہوا قبائلی اضلاع کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی سیاسی احتجاج میں خواتین بھی نکل آئیں۔‘

انہوں نے کہا کہ آج کل ضلع خیبر میں کسی دوسری سیاسی جماعت کا کوئی نام بھی نہیں لے رہا۔

اسی کا ذکر ضلع  باجوڑ سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک کارکن نے بھی اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر کیا۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اگرچہ  زرداری اور بلاول نے انہیں بہت عزت دی ہے لیکن پشاور جلسے کے بعد ان کے خیالات میں تبدیلی آئی ہے اور پی ٹی آئی کے لیے ان کے دل میں نرم گوشہ پیدا ہوگیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ عین ممکن ہے کہ وہ پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان