پشاور: زو بائیسکل منصوبہ کامیاب ہوا یا ناکام؟

18 لاکھ 40 ہزار روپے ماہانہ خرچے سے متعلق جب انڈپینڈنٹ اردو نے ایک شہری کی رائے مانگی تو انہوں نے کہا کہ ’اس حساب سے حکومت اگر 20 ہزار کی ایک سائیکل خریدتی تو ہر ماہ 100 سائیکلیں وہ مفت دے سکتی ہے۔

ٹرانس پشاور کے تحت سائیکل شیئرنگ منصوبے ’زو بائیسائیکل‘ کا سٹیشن جہاں کئی سائیکلیں کھڑی ہیں (تصویر: انیلا خالد)

پشاور میں ملک کے پہلے سائیکل شیئرنگ منصوبے ’زو بائیسکل‘ کا ایک سال پورا ہونے کے بعد انڈپینڈنٹ اردو کو حاصل ہونے والے اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ یہ منصوبہ معاشی و معاشرتی لحاظ سے زیادہ کارآمد نہیں ہے اور اس کی ممبرشپ فیس کم کرنے کے باوجود اس کی مقبولیت میں اضافہ نہیں ہو سکا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے سرکاری اعداد وشمارکی مدد سے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی ہے کہ آیا ایک سال کے عرصے میں یہ منصوبہ سواریوں کا خود پر انحصار بڑھانے میں کامیاب ہوا ہے کہ نہیں۔

زو بائیسکل منصوبے کا انتظام سنبھالنے والا حکومتی ادارہ ٹرانس پشاور اگرچہ پاکستان میں اپنی نوعیت کے پہلے اور منفرد اس منصوبے کو متعارف کروانے کا اعزاز سمیٹتے ہوئے کافی پرامید اور پرجوش رہا ہے تاہم عوامی حلقوں کی جانب سے اس کی ناکامی کی پیشن گوئی ہوئی تھی۔

مارچ 2021 میں سائیکل شیئرنگ پر انڈپینڈنٹ اردو کی ایک رپورٹ میں ناقدین کا کہنا تھاکہ شعور کی کمی، غربت، ناخواندگی اور ایسے دیگر عوامل اس منصوبے کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اول تو کرائے پر سائیکل لینا دنیا کے اس کونے میں مضحکہ خیز و غیر ضروری سمجھا جائے گا جبکہ دوسری جانب منتظمین کے لیے اس کی حفاظت کرنا بھی ایک مشکل کام ہوگا، اور ہر وقت کبھی سائیکل تو کبھی اس کے سٹیشن پر لگا سامان چوری ہونے کا خدشہ رہے گا۔

تاہم ٹرانس پشاور کے اس وقت کے ترجمان محمد عمیر نے کہا تھا کہ ’ان سائیکلوں میں ٹریکنگ چپس، سائیکل رجسٹریشن نمبر، بایومیٹرک تصدیق، شناختی کارڈ کی تصدیق شدہ کاپی، جیسے اقدامات اس کی حفاظت یقینی بنائیں گے۔‘

اعداد وشمار وزمینی حقائق

زو بائیسکل منصوبے کے لیے پشاور میں 16 سٹیشن پشاور یونیورسٹی اور 16 حیات آباد میں بنائے گئے، جن کے لیے چین سے 360 خصوصی سائیکلیں منگوائی گئیں۔

 ابتدا میں رجسٹریشن فیس 3 ہزار رکھی گئی جب کہ کئی گھنٹوں کے لیے سائیکل استعمال کرنے کا زیادہ سے زیادہ کرایہ 60 روپے رکھا گیا۔

جنوری 2022 میں لوگوں کی عدم دلچسپی کو دیکھتے ہوئے رجسٹریشن فیس میں مزید کمی لاتے ہوئےاسے ایک ہزار کردیا گیا اور اسی شرح سے کرایوں میں بھی کمی لائی گئی تاکہ سائیکل شیئرنگ کو کامیاب بنایا جاسکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم ایک سال گزرنے کے باوجود صرف 16 سو 50 لوگوں نے ممبرشپ حاصل کی ہے جن میں زیادہ تعداد یونیورسٹی کے طلبہ  کی ہے۔ خصوصاً وہ طلبہ جو ہاسٹلز میں رہتے ہیں جبکہ حیات آباد میں قائم 16 سٹیشن کی صورتحال اس کے برعکس ہے۔

ٹرانس پشاور کی جانب سے ملنے والے اعدادوشمار کے مطابق، 32 سٹیشنز کے لیے شفٹ کے حساب سے 80 سکیورٹی گارڈز بھی مقرر کیے گئے ہیں جن کی ماہانہ تنخواہ 21 ہزار ہے۔ مزید اخراجات میں سٹیشن کی بجلی کا بل بھی شامل ہے جو ماہانہ پانچ ہزار آتا ہے۔

ٹرانس پشاور کے سابق ترجمان کے مطابق سکیورٹی گارڈز رکھنے کا مقصد سٹیشن کی دیکھ بھال اور سائیکل حاصل کرنے والوں کی رہنمائی ہے۔

اگر ہمیں یہ جاننا ہے کہ یہ منصوبہ کامیاب یا ناکام ہوا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اس منصوبے کی لاگت، حکومت کی جانب سے عوام کو ملنے والی سبسڈی، ایک سائیکل کے ماہانہ خرچے اور منصوبے کے ماہانہ کُل خرچے کا جائزہ لیا جائے۔

اس ضمن میں حکومت کی جانب سے بجلی کا ماہانہ خرچہ ایک لاکھ 60 ہزار، سکیورٹی گارڈز کی تنخواہوں کا کُل ماہانہ خرچہ 16 لاکھ 80 ہزار اور اس منصوبے کا مہینے کا کُل خرچہ 18 لاکھ 40 ہزار روپے ہے۔

ان اعداد وشمار کی روشنی میں ایک سائیکل پر حکومت کا مہینے میں پانچ ہزار 111 روپے خرچہ آتا ہے۔

یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ کُل 1650 ممبرز ’ڈیلی یوزرز‘ نہیں ہیں، لہٰذا ہر ماہ ریگولر سائیکل شیئرنگ کرنے والوں کی تعداد صرف چند سو رہ جاتی ہے۔

18 لاکھ 40 ہزار روپے ماہانہ خرچے سے متعلق جب انڈپینڈنٹ اردو نے ایک شہری کی رائے مانگی تو انہوں نے کہا کہ ’اس حساب سے حکومت اگر 20 ہزار کی ایک سائیکل خریدتی تو ہر ماہ 100 سائیکلیں وہ مفت دے سکتی ہے۔ نہ مینٹیننس اور نہ ہی دوسرے جھنجھٹ پالنے پڑیں گے، کیوں کہ حکومت تو ویسے بھی اس منصوبے سے کچھ کماتی نہیں ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان