کیا آپ استری کیے بغیر کپڑے پہن سکتے ہیں؟

چینی اپنے کپڑے استری نہیں کرتے۔ ان کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا۔ نہ وہ ایک دوسرے کے بارے میں ایسی باتیں نوٹ کرتے ہیں۔ کسی نے کیا پہنا ہے۔ کیسا پہنا ہے۔ انہیں کوئی پروا نہیں ہوتی۔

چین میں کوئی بھی اپنے روزمرہ استعمال کے کپڑے استری نہیں کرتا (پیکسلز)

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے

 
 

کیا آپ سلوٹوں والے کپڑے پہن کر باہر جا سکتے ہیں؟ شاید نہیں۔ میں بھی کچھ سال پہلے تک ایسا نہیں کر سکتی تھی۔ بلکہ میری بات کیا، پاکستان میں ایسا کیا ہی نہیں جا سکتا۔ وہاں جو کپڑے استعمال کیے جاتے ہیں انہیں پہننے سے پہلے استری کرنا ضروری ہوتا ہے۔

آج کل گرمیاں ہیں۔ پاکستان میں اس موسم میں خواتین لان کے کپڑے پہنتی ہیں۔ لان دکھنے میں جتنی خوب صورت لگتی ہے، خریدنے میں اتنی ہی خوف صورت لگتی ہے۔ جو خریدتے ہیں وہ جانتے ہیں۔

لان کا سادہ سے سادہ جوڑا بھی پانچ ہزار میں ملتا ہے۔ ہلکی سی کڑھائی والے سوٹ آٹھ سے دس ہزار میں دستیاب ہوتے ہیں۔

لگثری لان کا تو لیول ہی الگ ہے۔ اس کی طرف تو مجھ جیسے لوگ دیکھ بھی نہیں سکتے۔ 

اتنے پیسے لگا کر کپڑے خریدے جائیں تو انہیں پہنتے ہوئے انسان ویسے ہی تھوڑا سا کانشیس ہو جاتا ہے۔ دھلائی بھی بہترین چاہیے اور استری بھی ایسی کہ ایک سلوٹ دکھائی نہ دے۔

پاکستانی مرد گرمیوں میں کاٹن کا استعمال کرتے ہیں۔ میرے والد صاحب کی طرح بہت سے دیسی مرد اپنی کاٹن کی شلوار قمیض کو کلف لگوا کر استری کرتے یا کرواتے ہیں۔

جینز اور ٹی شرٹ والی قوم بھی ہلکی پھلکی استری کا استعمال کر ہی لیتی ہے۔ نہ کریں تو ان کے اردگرد سے انہیں ان کے کپڑے استری نہ ہونے کا احساس کروا دیا جاتا ہے۔

سگھڑ افراد اپنی الماری میں ہی کپڑے استری کر کے رکھتے ہیں تاکہ کبھی بجلی نہ ہو اور انہیں کہیں پہنچنا ہو تو ان کے پاس استری شدہ کپڑے موجود ہوں۔

میری سستی اور قسمت نے مجھے ایسے بہت سے موقعوں پر بھرپور شرمندہ کیا ہے۔ ڈھٹائی دیکھیں کہ بجائے سگھڑ ہونے کے اور وقت سے پہلے کپڑے استری کر کے الماری میں رکھنے کے میں جہاز میں بیٹھی اور چین آ گئی جہاں کپڑے استری کرنے کا رواج ہی نہیں ہے۔

چینی اپنے کپڑے استری نہیں کرتے۔ ان کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا۔ نہ وہ ایک دوسرے کے بارے میں ایسی باتیں نوٹ کرتے ہیں۔

کسی نے کیا پہنا ہے۔ کیسا پہنا ہے۔ انہیں کوئی پروا نہیں ہوتی۔

میں نے چین آنے کے بعد استری خریدنے کی بھی زحمت نہیں کی بلکہ اس بارے میں سوچنے کی بھی کوشش نہیں کی۔

ہمارے ہاں دوسروں کے بارے میں ایسی چیزیں بہت نوٹ کی جاتی ہیں۔ آپ چاہے مریخ سے آ رہے ہوں۔ دیکھنے والے کہیں گے، ’ارے کپڑے نہیں استری کیے!‘

پچھلے دنوں کسی دوست سے اس بارے میں بات ہوئی تو احساس ہوا کہ میں پچھلے تین سالوں سے بغیر استری شدہ کپڑے پہن رہی ہوں۔

ایک دم آزادی کا احساس ہوا۔ پھر یاد آیا کہ عنقریب یہ آزادی ختم ہو جائے گی۔ پھر میں ہوں گی۔ استری سٹینڈ ہو گا۔ استری ہوگی اور کپڑوں کا ڈھیر ہو گا۔

ہمارے ہاں دوسروں کے بارے میں ایسی چیزیں بہت نوٹ کی جاتی ہیں۔ آپ چاہے مریخ سے آ رہے ہوں۔ دیکھنے والے کہیں گے، ’ارے کپڑے نہیں استری کیے!‘

چین میں کوئی کسی پر اتنا غور نہیں کرتا۔ نہ کوئی کسی کو دیکھتا ہے نہ کسی کو دیکھے جانے کا احساس ہوتا ہے۔ کچھ بھی پہنا ہو، کیسا بھی پہنا ہو، بس نکل جاؤ اور اپنا کام نبٹاؤ۔ وہ لازمی ہے۔ اس میں کوئی بہانہ نہیں۔ باقی سب ثانوی ہے۔

ہمارے ہاں کام کے علاوہ ہر چیز کو اہمیت حاصل ہے۔ کپڑے اچھے ہوں۔ اچھی طرح سے پہنے ہوں۔ فر فر انگریزی بولنا آتی ہو۔ لہجہ امریکی یا برطانوی یا ان کے قریب قریب ہو تو کیا ہی کہنے۔ پھر کچھ آتا ہو یا نہ آتا ہو واہ واہ آپ کو ہی نصیب ہو گی۔

مجھے آج بھی چین میں اپنی پہلی کلاس کا منظر یاد ہے۔ کلاس صبح آٹھ بجے تھی۔ میں وقت سے 15 منٹ پہلے ہی کلاس میں پہنچ گئی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پروفیسر مجھ سے پہلے وہاں موجود تھے۔ میں اگلی کلاس میں 20 منٹ پہلے آئی۔ وہ تب بھی وہاں موجود تھے۔ جانے کب آتے تھے۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہاں ہر شخص وقت کا ایسا ہی پابند ہے۔

میں پروفیسر کو ’ہیلو‘ بول کر ایک طرف بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر میں باقی طالب علم بھی آ گئے۔ آٹھ بجے پروفیسر اپنی نشست سے اٹھے اور ہمارے درمیان آ کر کھڑے ہو گئے۔ پہلی کلاس تھی تو آغاز تعارف سے ہی ہونا تھا۔ وہ اپنے بارے میں بتانے لگے اور میں ان کا جائزہ لینے لگی۔

میں نے ان کے بارے میں جو پہلی بات نوٹ کی وہ ان کے کپڑوں کا استری نہ ہونا تھا۔ یہ میرے لیے حیران کن تھا۔

میں ان کے کپڑے دیکھ رہی تھی اور وہ ہمیں اپنی تحقیق کے بارے میں بتا رہے تھے۔

انہیں بالکل فکر نہیں تھی کہ ان کے کپڑے کیسے دکھائی دے رہے تھے۔ ان کی تحقیق بہترین تھی۔ انہیں بس اس کے بہترین ہونے کی پروا تھی۔ بعد میں پتہ لگا کہ ان کا شمار یونیورسٹی کے بہترین پروفیسروں میں ہوتا ہے۔

ان کی طرح چین میں کوئی بھی اپنے روزمرہ استعمال کے کپڑے استری نہیں کرتا۔ نہ کسی کے بغیر استری شدہ کپڑے دیکھ کر باتیں کرتا ہے۔ چینی کپڑے ہی ایسے پہنتے ہیں جنہیں استری کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ یہاں کپڑوں پر موجود نرم سی سلوٹیں نارمل تصور کی جاتی ہیں۔

ان سلوٹوں کو دیکھ کر نہ آنکھیں چونکتی ہیں نہ ذہن میں کوئی بات آتی ہے۔ منہ سے کچھ نکلنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

ہمیں بھی اسی نارمل پن کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ تاہم اس کے لیے ہمیں بہت کچھ تبدیل کرنا ہو گا۔ اپنے کپڑے بھی، اور اس کے لیے ہم ابھی تیار نہیں ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ