ریاست یا کپتان؟

سوال یہ ہے کہ جناب عمران خان وطن عزیز میں ایسی کون سی غیر معمولی ترقی کی بنیاد رکھنے جا رہے تھے کہ امریکہ کو سازش کرنا پڑی؟

سابق وزیراعظم عمران خان 13 اپریل 2022 کو پشاور میں ایک جلسے میں (اے ایف پی)

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے

عمران خان کا دعویٰ ہے کہ ایک بین الاقوامی سازش کے نتیجے میں انہیں اقتدار سے الگ کیا گیا اور قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کا اعلامیہ کہہ رہا ہے کہ ایسی کسی سازش کے ثبوت نہیں ملے۔ میرے جیسا عام پاکستانی اب بیٹھا سوچ رہا ہے کہ وہ کس کا یقین کرے؟ ریاست کا یا کپتان کا؟

رومان پر نہیں، کسی بھی موقف کو اس کی دلیل پر پرکھا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ریاست کے اہم اداروں کی بجائے عمران خان کے موقف کو کس بنیاد پر قبول کیا جائے؟

حریف اہل سیاست کی دیانت اور حب الوطنی تو پہلے ہی مشکوک قرار دی جا چکی اب کیا ریاستی اداروں کو بھی مشق ستم بنانا مقصود ہے؟ کیا اس ملک میں جناب عمران خان اور ان کے دربار سے وابستہ خدام ادب کے علاوہ نہ کوئی ایماندار ہے اور نہ کسی کی حب الوطنی کا کوئی اعتبار؟ کیا کراچی سے خیبر تک وطن عزیز میں حب الوطنی اور دیانت کا ایک ہی جزیرہ آباد ہے جسے بنی گالہ کہا جاتا ہے؟علم اور د لیل کی دنیا میں یہ رویہ اجنبی ہے اور نا معتبر ہے۔ عصری سیاسی لغت میں اسے فاشزم کہتے ہیں۔

قومی سلامتی کمیٹی کا اعلامیہ متوازن ہے۔ اس میں سابقہ اجلاس کے فیصلوں کی توثیق کی گئی ہے۔ یعنی اس مراسلت پر سفارتی انداز سے جو رد عمل دیا جا سکتا تھا، نہ صرف دیا جا چکا بلکہ نئی حکومت بھی اسے درست سمجھتی ہے۔ یعنی اس معاملے کو محض عمران خان کا معاملہ نہیں سمجھا گیا بلکہ ریاستی وقار کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک ریاستی موقف سفارتی انداز سے پہنچایا گیا ہے۔ البتہ بات جتنی تھی اتنی ہی کہی گئی، اس میں کسی کی سیاسی ضروریات کے لیے برآمد کردہ سازش کی نفی کر دی گئی ہے۔

عمران خان صاحب کا معاملہ اب قابل فہم ہے۔ ان کی سیاست پہلے روز سے حقیقت کی بجائے مفروضوں پر کھڑی ہے۔ ان کی اس خوبی اور مہارت کی البتہ داد دینی چاہے کہ وہ ایک مفروضہ تیار کرتے ہیں اور پھر پروپیگنڈے کی غیر معمولی قوت سے وہ اسے سچ ثابت کر دیتے ہیں۔ تبدیلی کا یہ سارا سفر پوسٹ ٹروتھ کے سراب کے سوا کچھ نہیں۔

مفروضہ تھا کہ جناب عمران خان کے علاقہ سب کرپٹ، خائن اور بد عنوان ہیں، وقت آیا تو معلوم ہوا اپنی پاکی داماں کی حکایات بھی محض فسانہ ہی تھیں۔

مفروضہ تھا کہ پاکستانیوں کا دو چار سو ارب ڈالر لوٹ مار کر کے سوئس بنکوں میں رکھا ہے جیسے ہی عمران خان آئیں گے کبھی اس کے منہ پر سو ارب ڈالر ماریں گے کبھی اُس کے منہ پر، اقتدار ملا تو معلوم ہوا یہ سب جھوٹ تھا۔

مفروضہ یہ تھا کہ کپتان تو الیکشن جیت رہا تھا بس 35 پنکچرز لگ گئے اور اسے ہرا دیا گیا، اس مفروضے کو پرچم بنا کر رجز پڑھے گئے، ملک کے چیف جسٹس کی کردار کشی کی گئی، پورے ملک کو ہیجان سے دوچار کر دیا گیا اور پھر ایک روز مسند نشین نے کمال بے نیازی سے اعتراف کر لیا کہ یہ تو بس سنی سنائی بات تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 مفروضہ قائم کیا گیا کہ اوپر لیڈر ایماندار ہو تو نیچے سب ٹھیک ہو جاتا ہے اور تین سال کے اقتدار کے بعد اہل دربار ہمیں بتاتے پائے گئے کہ اوپر بیٹھا ایماندار لیڈر کیا کرتا جب نیچے ٹیم ہی ٹھیک نہیں تھی۔ اوپر بیٹھا ایماندار لیڈر اب قوم کو بتاتا پھرتا ہے کہ میرے پاکستانیو، وہ جو میں نے فلاں غلط فیصلہ کیا تھا وہ میرا تھوڑی تھا، تو مجھ سے فلاں نفیس قسم کے وزیر نے کرایا تھا۔

مفروضہ یہ تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف قانونی مہم اصل میں جناب عمران خان کی صداقت امانت اور دیانت کا تقاضا ہے۔ چنانچہ اس مفروضے کو پرچم بنا کر جنگجوؤں نے معزز جج کی کردار کشی کی وہ مہم چلائی کہ الامان۔ اور آج آ کر بچوں جیسی سادگی سے کہا جا رہا ہے قاضی صاحب کے خلاف ریفرنس بھیج کر غلطی ہو گئی تھی۔

مفروضہ یہ تھا کہ جب پٹرول مہنگا ہوتا ہے تو سمجھ جاؤ وزیر اعظم چور ہے اور جب اقتدار ملا تو اہل دربار مہنگے پٹرول کو روشنائی بنا کر وزیر اعظم کی دیانت کی غزل قصیدہ کرنے لگے۔

 مفروضہ یہ تھا کہ ساٹھ ستر سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی رہی اور اب کہیں آ کرچمن میں ایسا دیدہ ور پیدا ہوا ہے جو کشکول توڑ دے گا اور ہمیں آئی ایم ایف سے نجات دلائے گا۔ خودکشی کر لے گا مگر قرض نہیں لے گا۔ لیکن تین سال کے اقتدار کے بعد عالم یہ ہے کہ سٹیٹ بنک کا سربراہ اسی آئی ایم ایف کا ہے، بیرونی دباؤ پر سٹیٹ بنک خود مختار کیا جا چکا ہے اور 45 ماہ کے اقتدار میں 49 ارب ڈالر قرض لیا گیا ہے۔ یعنی قریب ایک ارب ڈالر ماہانہ۔

مفروضہ یہ تھا کہ ہم نے بیس بائیس سالہ جدوجہد کے بعد 200 ماہرین کی ٹیم تیار کر رکھی ہے اور ہم اقتدار میں آتے ہی ملک کی قسمت بدل دیں گے اور حقیقت یہ نکلی کہ اقتدار میں آنے کے بعد انہیں سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کرنا کیا ہے۔ وزارت خزانہ جیسی اہم وزارت کو چلانے کے لیے ان کے پاس اپنا بندہ کوئی نہیں تھا، یہ ذمہ داری کبھی مشرف کے وزیر کو سونپی توکبھی زرداری کے وزیر کو۔ خلق خدا اس کابینہ کو دیکھتی اور سوچتی کہ وہ سالہ جدوجہد کیا ہوئی اور وہ دو سو ماہرین کدھر چلے گئے؟

سیاست کا یہ چور دروازہ ہوتا ہے کہ اپنی خوبیوں کی بجائے دوسروں کی خامیوں کی بنیاد پر سرخرو ہونے کی کوشش کی جائے۔ تحریک اسی دروازے پر دستک دے رہی ہے۔

 یہ مفروضوں کی بنیاد پر اقتدار میں آئی کہ آ کر دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں گے۔ مفروضوں ہی کی بنیاد پر اپنے ناقص طرز حکومت کے یہ سہرے کہتے رہے اور اب جب اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں تو یہ اپنی کارکردگی پر بات کرنے کی بجائے ایک نئے مفروضے کا سہارا لے رہے ہیں کہ ہمیں تو امریکی سازش کے تحت نکالا گیا۔

نیم خواندہ معاشرہ جذباتی استحصال کا آسان ترین شکار ہوتا ہے۔ اور سماج کی شرح خواندگی کا حقیقی تعین کمر پر لادی ڈگریوں کے بوجھ سے نہیں، عصری سیاست، سماجیات اور آئین کے شعور سے ہوتا ہے۔

سازش کے اس نئے مفروضے کا کھوکھلا پن اور اس کے اہداف واضح ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ جناب عمران خان وطن عزیز میں ایسی کون سی غیر معمولی ترقی کی بنیاد رکھنے جا رہے تھے کہ امریکہ کو سازش کرنا پڑی؟

پھر یہ کہ کیا امریکہ جیسے ملک کے سامنے اس طرح کا بیانیہ کھڑا کرنے سے ریاست کو فائدہ ہو گا یا نقصان؟ جذبات سبھی کے ہوتے ہیں لیکن یہ بھی معلوم ہوناچاہیے کہ قومی غیرت کا راستہ جذبات فروشی سے نہیں اپنی تعمیر میں سے گزر کر جاتا ہے۔ جب عالم یہ ہو کہ 45 ماہ میں 49 ارب ڈالر قرض لیا جا رہا ہو تو پھر مزاحمت کا میدان مختلف ہونا چاہیے۔

داخلی سیاست کے لیے ریاست کے مفادات داؤ پر لگا دیے گئے ہیں، اقتدار کی طوالت کے لیے آئین کو خاطر میں نہیں لایا گیا، گورنر اور صدر جیسے آئینی مناصب کو حلف سے انکار کر کے سیاسی آلود گی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ گاہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اپنی ذات اور اپنے مفاد کے علاوہ مزاجِ یار کو کچھ بھی راس نہیں آتا۔

افتاد طبع کا یہ پہلو تشویش ناک ہے۔ اس کی اصلاح نہ کی گئی تو مجھے ڈر ہے یہ طرز عمل سماج کو دوراہے پر لا کھڑا کر دے گا اور معاشرہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے گا کہ اب اس کا انتخاب کیا ہونا چاہیے: ریاست یاکپتان؟

نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ 

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ