مرزا غالب کے محلے بلی ماراں میں رمضان کی رونقیں

کرونا وائرس کے باعث گذشتہ دو برس کے برعکس اس سال دہلی کے بلی ماراں اور مٹیا محل بازار کے مسلمان بھائی چارے کے ساتھ مل کر رمضان منا رہے ہیں۔

(سکرین گریب)

کرونا (کورونا) وائرس کے وبائی مرض کے دو سالوں نے پوری دنیا کے لوگوں کے رہن سہن کو بدل دیا اور کسی نہ کسی طریقے سے تہواروں کو متاثر کیا۔ ایسا ہی کچھ بھارت میں مسلمان کمیونٹی کے ساتھ ماہ رمضان میں بھی ہوا، لیکن اب صورت حال معمول پر آرہی ہے۔

خصوصاً دہلی کے بلی ماراں اور مٹیا محل بازار کے مسلمان بھائی چارے کے ساتھ مل کر رمضان منا رہے ہیں اور علاقے کا ماحول خوشگوار ہے۔ بلی ماراں کی وجۂ شہرت مرزا غالب کی وجہ سے ہے جو اسی علاقے میں رہتے تھے اور انہوں نے اپنے خطوں میں کئی بار اس علاقے کا تذکرہ کیا ہے۔

دہلی میں مقیم فضل الرحمان قریشی بتاتے ہیں کہ رواں برس رمضان المبارک میں گذشتہ دو سالوں کے برعکس لوگ نمازیں ادا کرکے اللہ کو راضی کرنے کے لیے پوری طرح پرجوش ہیں۔ ایک بار پھر بازار لوگوں سے کھچا کھچ بھرے ہوئے ہیں اور سب کچھ ٹھیک طریقے سے چل رہا ہے۔

انہوں نے بتایا: ’پرانی دہلی میں جس طرح سے رمضان منایا جاتا ہے وہ بہت مشہور ہے۔ پوری دنیا میں کچھ لوگ 16، 18 یا 20 گھنٹے کا روزہ رکھتے ہیں لیکن پرانی دہلی میں روزہ رکھنے کا وقت زیادہ سے زیادہ پانچ گھنٹے ہے کیونکہ لوگ رات بھر جاگتے ہیں، پھر صبح سوتے ہیں، دوپہر کو ظہر کی نماز پڑھتے ہیں اور افطار کے وقت انوکھے طریقے سے افطار کرتے ہیں جو کہ عصر کی نماز کے چار گھنٹے بعد ہوتی ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’رات کے وقت ایسا لگتا ہے جیسے اللہ تعالی  ہم پر رحم کر رہے ہیں کیونکہ بازار لوگوں سے بھرا رہتا ہے۔‘

پرانی دہلی میں ’قریشی کباب‘نامی دکان کے مالک محمد سلمان نے بتایا کہ رمضان برکتوں کا مہینہ ہے اور یہاں مختلف طریقے سے منایا جاتا ہے اور وہ گاہکوں کو مناسب نرخوں پر مختلف قسم کے پکوان پیش کرتے ہیں۔

 انہوں نے مزید بتایا کہ ’دیگر جگہوں کے مقابلے میں یہاں بھیڑ رہتی ہے۔‘

ایک غیر ملکی سیاح اِناتو نے جو اپنی والدہ کے ساتھ دہلی کے دو ہفتے کے دورے پر تھے، بتایا کہ ’یہاں سب کچھ اچھا ہے کیونکہ یہ رمضان کا مہینہ ہے اور ہر کوئی رات کا انتظار کرتا ہے۔‘

اپنے خاندان کی صدیوں پرانی دکان چلانے والے عزیز الرحمان کہتے ہیں کہ اب ایک بار پھر معاملات ٹریک پر ہیں اور کاروبار کو پھر سے فروغ مل رہا ہے۔

’جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگ کام کرنے کے قابل نہیں رہے اور کچھ وبائی امراض کی وجہ سے اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، جس کی وجہ سے ملک میں معاشی بحران پیدا ہوا۔‘

پرانی دہلی میں اپنے دادا کی 80 سال پرانی کھانے کی دکان چلانے والے محمد شان نے بتایا: ’ہم روزہ داروں کو جو کھانا پیش کرتے ہیں وہ ان کے لیے مقدس مہینے کا تحفہ ہے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی یہاں آتا ہے تو رات گئے تک یہاں ہجوم دیکھ سکتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا