ایلون مسک ٹوئٹر کیوں خریدنا چاہتے ہیں؟

ٹوئٹر خریدنے کے لیے ایلون مسک کے پاس پیسے کہاں سے آئیں گے؟ اور اگر وہ کامیاب ہو جاتے ہیں تو ٹوئٹر کیسا نظر آئے گا؟ چند سوالوں کے جواب

دنیا کے امیر ترین افراد میں سے ایک ایلون مسک نے 44 ارب ڈالرز میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر کو خریدنے کا معاہدہ کر لیا ہے۔ ان کا ارادہ ہے کہ اس پلیٹ فارم کو مکمل طور نجی بنا دیا جائے تاکہ وہ اپنے اس عزم کو پورا کر سکیں جسے وہ ’آزادی اظہار‘ کہتے ہیں۔

ایلون مسک آٹھویں مقبول ترین ٹوئٹر صارف ہیں اور ان کی پیشکش، جس پر ٹوئٹر نے پیر کو ہاں کی تھی، اتنے ہی سوالات کو جنم دیتی ہی جتنے اس کے جوابات ہیں۔

ان میں کچھ سوالات ہیں کہ وہ اسے کیوں خریدنا چاہتے ہیں؟ پیسہ کہاں سے آ رہا ہے؟ کیا اس کی فروخت سے شیئر ہولڈرز خوش ہوں گے؟ اور اگر وہ کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کیسا نظر آئے گا؟

ایلون مسک کو ٹوئٹر میں دلچسپی کیوں ہے؟

ٹیسلا کے بانی کا کہنا ہے کہ وہ ٹوئٹر خریدنے کے اس لیے خواہش مند ہیں کیونکہ بظاہر یہ سروس ’آزادی اظہار کے پلیٹ فارم‘ کی حیثیت سے اپنی صلاحیتوں پر پورا نہیں اتر رہی ہے۔

ان کا اصرار ہے کہ ٹوئٹر سے پیسہ کمانے میں انہیں کوئی دلچسپی نہیں۔ اپنے حالیہ بیان میں ایلون مسک نے کہا کہ ان میں اس احساس سے ترغیب پیدا ہوئی کہ ’تہذیب کے مستقبل کے لیے ایک انتہائی جامع اور سب سے قابل اعتبار پلیٹ فارم کی موجودگی انتہائی اہم ہے۔‘

ٹوئٹر دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی طرح تشدد، نفرت انگیز تقاریر یا نقصان دہ غلط معلومات شیئر کرنے اور مواد کے معیارات کی خلاف ورزی پر اکاؤنٹس معطل کر دیتا ہے۔

اس کی ایک مثال سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹوئٹر اکاؤنٹ کی معطلی تھی، جس پر ان کے فالورز غصے میں آگئے تھے۔

ایلون مسک نے خود کو’آزادی سے اظہار رائے کرنے والا مطلق‘ قرار دیا ہے، لیکن انہوں نے ان ٹوئٹر صارفین کو بلاک کر دیا ہے جو ان سے سوال کرتے ہیں یا ان سے اختلاف رکھتے ہیں۔

 ریگولیٹرز نے ان کی کار کمپنی ٹیسلا پر بھی الزام لگایا ہے کہ وہ ان سیاہ فام ورکرز کے خلاف جوابی کارروائی کر رہی ہے، جنہوں نے امتیازی سلوک کے بارے میں بات کی تھی۔

ایلون مسک کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آئیں گے؟

ایلون مسک دنیا کے امیر ترین شخص ہوسکتے ہیں، لیکن ان کی زیادہ تر دولت ٹیسلا کے سٹاک (جس کے 17 فیصد کے وہ مالک ہیں) اور نجی خلائی فرم سپیس ایکس میں لگی ہوئی ہے۔

ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس اہم کرپٹو ہولڈنگز ہیں جن میں زیادہ تر بٹ کوائن، ایتھریم (ای ٹی ایچ) اور کچھ ڈوگی کوئن ہیں، لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اپنی کرپٹو کرنسی فروخت نہ کرنے اور مستقبل کے لیے سنبھال رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

رواں ماہ ٹیڈ 2022 کانفرنس میں انٹرویو کے دوران ایلون مسک نے کہا کہ ان کے پاس اس سودے کے لیے ’کافی اثاثے‘ ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر ممکن ہو تو میں یہ کر سکتا ہوں۔‘

پچھلے ہفتے فائل کرنے والی ایک سکیورٹیز سے انکشاف ہوا ہے کہ انہوں نے بولی کی مالی اعانت کے لیے مورگن سٹینلے سینیئر فنڈنگ سے 22 ارب ڈالر جمع کیے ہیں اور وہ باقی رقم ایکویٹی فروخت کرکے ادا کریں گے۔

کیا ٹوئٹر کے شیئر ہولڈرز اس فروخت سے خوش ہوں گے؟

کامیاب بولی کی توقع کے باعث پیر کی صبح پری مارکیٹ ٹریڈنگ میں ٹوئٹر سٹاک کی قیمت میں تیزی آئی۔ شیئر کی قیمت گذشتہ 12 ماہ میں 70 ڈالر سے اوپر رہی ہے اور فروری 2021 میں یہ 80.75 ڈالر تک پہنچ گئی تھی، یہ اگرچہ ایلون مسک کی لگائی گئی قیمت سے بہت کم ہے۔

نومبر میں ٹوئٹر کے شریک بانی جیک ڈورسی کے جانے کے بعد سے چیف ایگزیکٹو کی تبدیلی کے نتیجے میں پیراگ اگروال سی ای او بنے، جن کے ابتدائی اقدامات میں اندرونی تنظیم نو شامل ہے۔

ٹوئٹر میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔ ہائی پروفائل مشہور شخصیات، سیاست دان، بڑی تعداد میں صحافیوں کی موجودگی اور اپنے بہت زیادہ اثر و رسوخ کے باوجود اس پلیٹ فارم پر اپنے حریف فیس بک اور ٹک ٹاک کے مقابلے میں کم صارفین ہیں۔

ایلون مسک خود ایک بہت بڑے صارف ہیں، جن کے 81 ملین سے زائد فالوورز ہیں۔

جیک ڈورسی نے، جو اب بھی اس کے ایک بہت بڑے شیئر ہولڈر ہیں، کوئی اشارہ نہیں دیا کہ وہ ایلون مسک کی پیشکش کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ دو فیصد حصہ رکھنے والے جیک کو توقع ہے کہ شاید اس سودے سے 800 ملین ڈالرز سے زائد کی رقم ملے۔

ایلون مسک ٹوئٹر میں کیا تبدیلی کر سکتے ہیں؟

یہ کہنا کہ ٹوئٹر ’آزادی اظہار کے لیے پلیٹ فارم‘ بننے کی اپنی صلاحیت پر پورا نہیں اتر رہا ہے، اس سے ایسا لگتا ہے کہ ایلون مسک پوسٹ ہونے والے مواد کے معیارات میں تبدیلی کریں گے۔

ایسا کرنے سے ہوسکتا ہے کہ وہ لوگ دوبارہ ٹوئٹر واپس آجائیں جن پر ماضی میں پابندی تھی۔ ممکنہ طور پر یہ بھی ہوسکتا ہے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اکاؤنٹ بحال ہوجائے تاہم ابھی ڈونلڈ ٹرمپ نے ایسی کسی واپسی سے انکار کیا ہے۔

فاکس نیوز کو ایک انٹریو میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ’میں ٹوئٹر پر نہیں جا رہا۔‘

ان کا کہنا تھا: ’میں ٹروتھ سوشل پر رہنا چاہوں گا۔‘ انہوں نے ایلون مسک کی ٹوئٹر کے ساتھ لین دین پر بات کرتے ہوئے کہا: ’میں امید کرتا ہوں کہ ایلون ٹوئٹر خرید لیں کیوں کہ وہ اس میں بہتری لائیں گے اور وہ اچھے آدمی ہیں لیکن میں ٹروتھ پر ہی رہوں گا۔‘

ٹروتھ سوشل ڈونلڈ ٹرمپ کا اپنا سوشل میڈیا پلان ہے۔

ایلون مسک کرپٹو سپیم بوٹس کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کریں گے، جنہوں نے حالیہ برسوں میں اس پلیٹ فارم کو مشکلات سے دو چار کیا ہے۔ اس سے سروس کے اشتہارات کم ہو گئے ہیں اور اشتہارات سے ٹوئٹر پیسے کماتا ہے۔

اس کے علاوہ ٹویٹ کو ایڈٹ کرنے کی آپشن اور موضوعات کے اعتبار سے فالوونگ پر بھی غور کیا جا رہا ہے تاکہ آپ موضوعات دیکھ سکیں ناکہ لوگوں کو فالو کریں۔

ایلون مسک کے ٹوئٹر خریدنے پر کچھ لوگ کیوں فکر مند ہیں؟

سوشل میڈیا کمپنیاں غلط معلومات اور نفرت انگیز تقریر پر قابو پانے کے لیے جدوجہد کرتی ہیں۔

ایلون مسک، جن کی ٹویٹس کی وجہ سے آن لائن تنگ کرنے والے ان کے ناقدین کو آن لائن پریشان کر سکتے ہیں، مواد کے معیارات طے کرنے کے خواہش مند نظر نہیں آتے۔

گلوبل ڈیٹا کی تجزیہ کار ریچل فوسٹر جونز نے کہا: ’اگر ایلون مسک کا سودا کامیاب ہوجاتا ہے تو دنیا بھر میں ریگولیٹرز آزادی اظہار کے ممکنہ مضمرات کا جائزہ لیں گے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’ایلون مسک واضح طور پر جمہوریت کے فائدے کی خاطر آزادی اظہار رائے کو فروغ دینے کے لیے سنجیدہ ہیں لیکن آزادی اظہار اور نفرت انگیز تقریر یا غلط معلومات کے درمیان تفریق دھندلاتی جا رہی ہے اور ٹوئٹر کو تبدیل کرنے کی کوششں کے باعث یہ مسائل باآسانی قابو سے باہر ہو سکتے ہیں۔‘

اینڈرسن کے ساتھ اپنی گفتگو میں ایلون مسک نے کہا کہ ’ٹوئٹر اس ملک کے قوانین کا پابند ہے جس میں وہ کام کرتا ہے، لہذا ظاہر ہے کہ امریکہ میں آزادی اظہار پر کچھ حدود ہیں اور یقیناً ٹوئٹر کو ان قوانین کی پاسداری کرنی ہوگی۔‘

انہوں نے کہا: ’لیکن ’ٹویٹس کو پراسرار طور پر پروموٹ اور ڈیموٹ کیا جانا‘ اور ’بلیک باکس الگورتھم‘ کا ہونا ’کافی خطرناک‘ ہے۔

امریکہ کے تحفطات

ٹوئٹر کو خریدنے کی خبر پر ردعمل میں بقول وائٹ ہاؤس امریکی صدر جو بائیڈن نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی طاقت پر تحفطات کا اظہار کیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس موقع پر سٹاک مارکیٹ میں ٹوئٹر کے شیئرز کی مالیت 5.6 فیصد اضافے پر بند ہوئی۔

تاہم امریکی حکام نے اس موقعے پر اپنے دیرینہ تحفظات کو دہرایا ہے۔

ایک معمول کی پریس کانفرنس کے دوران جب وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری جین ساکی سے ٹوئٹر کی لین دین پر سوال ہوا تو ان کا کہنا تھا کہ ’میں کسی مخصوص لین دین پر تبصرہ نہیں کروں گی۔‘

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’بلاغرض اس سے کہ ٹوئٹر کس کی ملکیت ہے یا کون اسے چلاتا ہے، صدر کو بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر دیرینہ تحفظات ہیں۔‘

جین ساکی نے اپنی بات کی مزید وضاحت میں کہا کہ ’انہیں (سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو) ہماری زندگیوں پر جو اختیار حاصل ہے اس پر دلیل دی جاتی ہے کہ انہیں لازمی جوابدہ بنانا ہوگا، جب وہ نقصان پہنچائیں۔ وہ (صدر بائیڈن) بنیادی اصلاحات کے حامی ہیں تاکہ یہ ہدف حاصل کیا جا سکے۔‘

جین ساکی سے تحفظات کے حوالے سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے تحفظات نئے نہیں ہیں۔ ہم نے اور صدر نے کافی مرتبہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی طاقت پر بات کی ہے۔‘

تحفظات کی تفصیلات بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا: ’جیسا کہ غلط معلومات پھیلانا۔ نقصان کی نیت سے غلط معلومات پھیلانا اور اس ضرورت پر کہ ان پلیٹ فارمز کو جوابدہ بنایا جائے۔‘

جین ساکی کا کہنا تھا کہ ’میرے پاس اس مخصوص لین دین پر کوئی تبصرہ نہیں ہے۔ اس وقت ہمیں اندازہ بھی نہیں ہے کہ پالیسیاں کس طرح کی ہوں گی۔‘

ٹوئٹر سابق امدیکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے ایک لاؤڈ سپیکر تھا لیکن پھر ٹوئٹر نے ان پر پابندی لگا دی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی الیکشن کی شفافیت پر سوال اٹھائے تھے اور اپنے حامیوں کو مبینہ طور پر تشدد پر اکسایا تھا جس کے بعد وہ امریکی کانگرس سمیت دیگر سرکاری عمارتوں میں داخل ہو گئے تھے۔

ایلون مسک آزادیِ تقریر کے نظریے کے قائل ہیں اور انہوں نے کہا تھا کہ وہ  ٹوئٹر کی مواد پر حد سے زیادہ متحرک کنٹرول کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔

ٹوئٹر کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں ایلون مسک نے کہا کہ ’آزادیِ تقریر کام کرتی ہوئی جمہوریت کی بنیاد ہے اور ٹوئٹر ایک ڈیجیٹل چوراہا ہے جہاں انسانیت کے مستقبل سے متعلق اہم معاملات پر بحث کی جاتی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’میں ٹوئٹر کو پہلے سے بہتر بنانا چاہتا ہوں اس میں مزید فیچر شامل کرکے، جن میں ایلگورتھم کو عوامی بنانا شامل ہے تاکہ اعتبار بڑھایا جاسکے، جعلی اکاؤنٹس کو ختم کیا جائے اور تمام انسانوں کی تصدیق کی جائے۔‘

تاہم ایلون مسک جس قسم کے مواد کی ٹوئٹر پر اجازت دیں گے اس پر ایڈوکیسی گروپس کو تحفظات ہیں۔

شہری حقوق کی ایک تنظیم این اے اے سی پی کے صدر ڈیریک جانسن نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’ٹوئٹر کو نفرت انگیز تقریر، غلط معلومات یا نقصان پہنچانے کے لیے غلط معلومات کا پکوان نہ بننے دیں۔ ہماری جمہوریت کی حفاظت اہم ترین ہے۔‘

اپریل کے آغاز میں ایلون مسک نے ٹوئٹر کے نو فیصد حصص خریدے تھے لیکن بعد ازاں آزادیِ تقریر کے تحفظ کے مشن کے ساتھ پوری کمپنی خریدنے کی پیش کش کی۔

نوٹ: اس رپورٹ کی تیاری میں دا انڈپینڈنٹ اور اے ایف پی سے مدد لی گئی۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا