پی ٹی آئی استعفے: ’بعض دستخط اصل سے مطابقت نہیں رکھتے‘

سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں یہ انکشاف بھی کیا کہ تحریک انصاف کے مستعفی ہونے والے بعض ارکان نے سپیکر آفس سے رابطہ کیا ہے۔

سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے جمعرات کو انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں پاکستان تحریک انصاف کے اراکین کی جانب سے جمع کروائے گئے استعفوں پر موجود دستخطوں کو ’غیر مصدقہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بعض اراکین کے دستخط اصل دستخط سے مطابقت نہیں رکھتے، جس کی تصدیق ہونا ضروری ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ تمام استعفے ایک ہی طریقے سے لکھے گئے ہیں، جو اسمبلی قواعد کے خلاف ہیں۔

سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے 14 اپریل 2022 کو پی ٹی آئی کے 123 اراکین کے استعفے منظور کرنے کی تصدیق کی تھی۔ قاسم سوری کے عمل پر قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے اعتراض اٹھایا تھا اور استعفوں کی منظوری کا نوٹیفیکشن الیکشن کمیشن کو نہ بھیجنے کی وجہ بھی قومی سیکریٹریٹ کا اعتراض ہی بتائی جا رہی ہے۔

قواعد کے مطابق استعفوں کی منظوری کے لیے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ اس رکن کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کو نوٹیفکیشن بھیجتا ہے اور اسی نوٹیفیکشن کے مطابق الیکشن کمیشن رکن کو ڈی نوٹیفائی کرتا ہے۔

موجودہ سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے حلف اٹھانے کے فوری بعد قاسم سوری کے منظور کردہ استعفوں کو دوبارہ جائزہ لینے کے لیے اپنے پاس منگوائے تھے۔

اس معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو نے سپیکر راجہ پرویز اشرف سے گفتگو کی، جن کا کہنا تھا کہ ’تمام استعفے ایک ہی پیٹرن پر ٹائپ کیے گئے ہیں جو قومی اسمبلی کے قواعد کے خلاف ہیں۔‘

راجہ پرویز اشرف کے مطابق: ’مجھے بتایا گیا کہ بعض اراکین کے دستخط بھی درست نہیں ہیں اور وہ دستخط اصل دستخط سے میچ ہی نہیں کرتے اس لیے تمام اراکین سے تصدیق ہونا ضروری ہے، اس کے بغیر بات آگے نہیں بڑھ سکتی۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’استعفے اپنے ہاتھ سے لکھے ہونے چاہییں، اس لیے تمام ارکان کو بلانا ضروری ہے۔‘

راجہ پرویز اشرف نے مزید کہا کہ ’ تمام ارکان کو کہوں گا کہ اگر وہ استعفے دینا چاہتے ہیں تو وہ ان کے سامنے اپنے ہاتھ سے استعفے لکھ کر دیں تو ہی وہ منظور کریں گے  اور اگر یہ محسوس ہوا کہ کسی رکن پر دباؤ تھا اور وہ استعفیٰ نہیں دینا چاہتا تو پھر وہ رکن آزاد ہے۔‘

اس سے قبل انڈپینڈنٹ اردو کو ایک پی ٹی آئی رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ 11 اپریل 2022 کو ہونے والے پی ٹی آئی کے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں اراکین قومی اسمبلی کو پرنٹڈ استعفے دیئے گئے تھے، جہاں نام اور حلقے لکھنے سمیت دستخط کی جگہ خالی تھی۔ اجلاس میں اراکین کو بتایا گیا کہ انہیں ان استعفوں کو پُر کرکے پارٹی کے ایڈیشنل جنرل سیکریٹری عامر کیانی کو جمع کروانے ہوں گے۔

پی ٹی آئی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے بعد استعفے دینے کا اعلان قومی اسمبلی کے اجلاس میں کیا گیا۔

سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کا کہنا تھا کہ وہ جلد تحریک انصاف کے 123 ارکان کے استعفوں کی تصدیق کا عمل شروع کر رہے ہیں اور انہوں نے تمام فہرستوں کا جائزہ لے لیا ہے۔

بقول راجہ پرویز اشرف: ’استعفوں کے معاملے پر فیصلہ آئین، قانون اور رولز کے مطابق کروں گا، سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر دیکھا جائے گا کہ کسی رکن نے دباؤ میں آ کر تو ووٹ نہیں دیا۔‘

یہ بھی پڑھیں: فواد چوہدری اور شیخ رشید نے مروا دیا: پی ٹی آئی پارلیمانی اجلاس کی اندرونی کہانی

اپوزیشن لیڈر کا معاملہ

اس حوالے سے سوال کے جواب میں راجہ پرویز اشرف کا کہنا تھا کہ اپوزیشن لیڈر کے انتخاب کا معاملہ بڑا واضح ہے۔ ’جس رکن کی اپوزیشن کے اکثریت ارکان حمایت کریں گے تو اپوزیشن لیڈر بننا اکثریت رکھنے والے اس رکن کا حق ہے۔‘

استعفی دینے والے بعض پی ٹی آئی اراکین کا سپیکر آفس سے رابطوں کا انکشاف

دوسری جانب سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے مستعفی ہونے والے بعض ارکان کے سپیکر آفس سے رابطوں کا بھی انکشاف کیا ہے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ارکان قومی اسمبلی کے مستعفی ہونے کا ایک مکمل طریقہ کار ہے، میرے سٹاف سے دو درجن کے قریب ارکان کی جانب سے رابطے کیے گئے ہیں، اس لیے سب کو عید کے بعد بلایا جائے گا۔‘

قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے مستند ذرائع نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 123 ارکان میں سے بعض ارکان کے دستخط قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے ریکارڈ سے میچ ہی نہیں کرتے جبکہ مہر غلام محمد لالی، عامر سلطان چیمہ، خواجہ شیراز محمود اور ملک محمد احسان اللہ ٹوانہ سمیت 30 کے قریب اراکین  نے سیکریٹریٹ سے رابطہ کرکے ان کے استعفے قبول نہ کرنے کی درخواست کی ہے۔

ذرائع نے بتایا ہے کہ ’مستعفی ہونے والے بعض ارکان نے واضح طور پر کہا ہے کہ انہیں بلائے اور سنے بغیر استعفے منظور نہ کیے جائیں۔‘

جب انڈپینڈنٹ اردو نے مہر غلام محمد لالی سے رابطہ کیا تو بتایا گیا کہ ’وہ اس وقت اپنے حلقے میں موجود ہیں اور بات نہیں کر سکتے۔‘

دوسری جانب عامر سلطان چیمہ نے انڈیپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ سے رابطے کی تصدیق کی۔

انہوں نے بتایا کہ انہوں نے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ سے رابطہ کرکے یہ کہا تھا کہ ان کے استعفے کی انہیں بلا کر تصدیق کی جائے لیکن اب انہوں نے 26 اپریل 2022 کو اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا استعفی بھی بھجوا دیا ہے۔

عامر سلطان کا کہنا تھا کہ اب وہ استعفیٰ دینا چاہتے ہیں اور سپیکر قومی اسمبلی نے تصدیق کے لیے بلایا تو وہ جائیں گے اور سپیکر کو کہیں گے کہ ان کا استعفیٰ منظور کیا جائے۔

انہوں نے بتایا: ’جب مجھے بلائیں گے تو میں بتا دوں گا کہ میں نے اس اسمبلی میں نہیں رہنا جہاں میرا قائد موجود نہیں۔ خان صاحب نے اراکین قومی اسمبلی کو استعفے لکھ کر ارسال کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔‘

خواجہ شیراز محمود اور ملک محمد احسان اللہ ٹوانہ سے مسلسل رابطہ کرنے کے باوجود ان کا موقف نہ مل سکا۔

قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے بتایا ہے کہ رولز کے تحت استعفوں پر مستعفی ہونے والے رکن کے دستخط کی تصدیق انتہائی ضروری ہوتی ہے تاکہ یہ اطمینان ہو کہ رکن نے کسی کے کہنے یا دباؤ میں آکر تو استعفیٰ نہیں دیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست