موسمی حالات میں تیزی سے تبدیلی کرہ ارض پر پائیدار زندگی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ موسمی تبدیلی نہ صرف انسانی زندگی پر اثر انداز ہو رہی ہے بلکہ معیشت پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔
موسمی تبدیلی کے نتیجے میں سیلاب، قحط، خشک سالی اور سمندری طوفانوں جیسی قدرتی آفات آتی ہیں۔
پاکستان میں موسمی تبدیلی کے اثرات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اثرات وسیع تر ہوں گے جن میں زرعی پیداوار میں کمی، پانی کی فراہمی میں زیادہ اتار چڑھاؤ، سمندر کی سطح میں اضافہ اور شدید موسمی واقعات کے رونما ہونے میں اضافہ ہو گا۔
’جرمن واچ‘ نامی ماحولیات کی عالمی تنظیم کے مطابق پاکستان کا شمار ان 10 ممالک میں ہوتا ہے جو گذشتہ دو دہائیوں میں موسمی تبدیلی کے نتیجے میں بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
گلوبل کلائمٹ رسک انڈیکس کی سالانہ رپورٹ 2020 کے مطابق پاکستان کو 1999 سے لے کر 2018 تک 3.8 ارب ڈالر ڈالر کا معاشی نقصان ہو چکا ہے اور پاکستان میں 152 شدید موسمی واقعات پیش آ چکے ہیں۔
اسی طرح ایشیائی ترقیاتی بینک کے تجزیے کے مطابق ماحولیاتی تنزلی کی سماجی معاشی قیمت بہت زیادہ ہے۔
دنیا بھر کو موسمی تبدیلی کا سامنا ہے اور کئی علاقوں میں اس تبدیلی کے باعث شدید موسمی واقعات پیش آ تے ہیں۔ سنہ 2000 سے لے کر 2019 تک پونے پانچ لاکھ افراد جان سے گئے اور 11 ہزار واقعات میں کھربوں ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔
گلوبل کلائمٹ رسک انڈیکس کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک وہ جن میں وہ ممالک ہیں جو غیر معمولی قدرتی حادثات سے متاثر ہوئے اور دوسرا وہ ممالک جو شدید موسمی واقعات کے نتیجے میں تواتر سے متاثر ہو رہے ہیں۔
پہلی قسم میں میانمار شامل ہے جہاں 2008 میں سمندری طوفان ’نرگس‘ کی وجہ سے بہت زیادہ نقصان ہوا۔ پھر 2017 میں ’ماریا‘ طوفان نے پورتو ریکو کو بہت نقصان پہنچایا۔ 2017 میں سمندری طوفانوں کے باعث 2017 دنیا کا عالمی موسمی حادثات سے ہونے والے نقصان کے حوالے سے مہنگا ترین سال تھا۔
لیکن گذشتہ کچھ سالوں میں ایسے ممالک پر زیادہ توجہ مرکوز ہے جو شدید موسمی واقعات کے نتیجے میں تواتر سے متاثر ہو رہے ہیں۔ اس فہرست میں ہیٹی اور فلپائن کے علاوہ پاکستان بھی شامل ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ وہ ممالک ہیں جو بار بار تباہی سے لمبے دورانیے کی فہرست میں بھی سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہوتے ہیں اور ہر سال رونما ہونے والی تباہ کاریوں سے متاثر ہونے والے ممالک کی فہرست میں بھی ہوتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت میں گذشتہ ایک دو ماہ میں جو درجہ حرارت رہا ہے اس نے تمام قومی اور عالمی ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ پاکستان میں مارچ 1961 کے بعد سے سب سے زیادہ گرم ترین مہینہ رہا ہے جبکہ انڈیا کے جنوب مغرب اور وسط انڈیا میں اپریل ایک صدی میں سب سے گرم ترین اپریل کا مہینہ رہا ہے۔
پاکستان میں صوبہ سندھ کے شہر جیکب آباد میں چند دن قبل ہی درجہ حرارت 49 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا۔ جیکب آباد وہی شہر ہے جس کے بارے میں گذشتہ سال ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ یہ شہر ’انسانوں کے رہنے کے قابل نہیں ہے۔‘
صرف یہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر درجہ حرارت میں ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہو جاتا ہے تو پاکستان میں کراچی اور بھارت میں کلکتہ جیسے شہر 2015 جیسی گرمی ہر سال دیکھیں گے۔ پاکستان میں 2015 میں آنے والی شدید ہیٹ ویو کے نتیجے میں 1200 سے زائد افراد چل بسے تھے۔ اسی طرح 2010 کے بعد سے بھارت میں بھی چھ ہزار 500 سے زیادہ افراد ہیٹ ویو کے باعث ہلاک ہوچکے ہیں۔
تاہم امریکی تنظیم برائے ماحولیات برکلے ارتھ کے تجزیے کے مطابق انڈیا اور پاکستان میں اس صدی کے آخر تک درجہ حرارت میں ساڑھے تین ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہو چکا ہو گا۔
اگرچہ پاکستان اور انڈیا کے علاوہ بھی ممالک ہیں جہاں پر درجہ حرارت بہت زیادہ ہیں لیکن آبادی کے تناسب، معاشی عمل اور شہری علاقوں میں تیزی سے اضافے کی وجہ سے شدید موسمی واقعات سے برصغیر کے متاثر ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔
اقوام متحدہ کا ادارہ برائے ترقیاتی پروگرام پاکستان پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا میں 3044 گلیشیئر جھیلیں بن چکے ہیں جن سے 71 لاکھ افراد کو خطرہ لاحق ہے۔
تحقیق میں کہا گیا ہے کہ صنعتی دور سے قبل سے زمین کی سطح کے درجہ حرارت میں ایک ڈگری کا اضافہ ہوا ہے اور دنیا بھر میں پہاڑی علاقے میں گرمی میں دو گنا اضافہ ہوا ہے جس کے باعث گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار میں اضافہ ہوا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمی تبدیلی کے باعث گلیشیئر جھیلوں میں تواتر سے اضافہ ہو رہا ہے اور اگر بروقت ٹھوس اقدامات نہ کیے گئے تو حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ اس لیے وقت ہے کہ اس حوالے سے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ان جھیلوں کے گرد ایسے انجینیئرنگ سٹرکچر کھڑے کیے جائیں جن سے ان سے ہونے والے نقصان کو کم کیا جا سکے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس وقت زیادہ نہیں ہے۔ ہمارے پاس ٹیکنالوجی بھی ہے اور سائنس بھی۔ مسئلہ سائنس کے نہ ہونے کا نہیں ہے بلکہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے قوت ارادی کی کمی ہے۔