تم ابھی تک چین میں ہو؟

دوسروں کے بارے میں سب کچھ جاننے کی خواہش رکھنے والوں سے ان کے بارے میں پوچھا جائے تو انہیں فوراً وہ حدیں نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں جو دوسروں سے سوال پوچھتے ہوئے انہیں نظر نہیں آتیں۔

یہ سب لوگ وہ ہیں جن کا نہ ہم سے کوئی تعلق ہے اور نہ کوئی واسطہ۔ بس کبھی ملے ہوں گے، نمبروں کا تبادلہ ہوا ہو گا، اب ایک دوسرے کے فون میں محض ایک کانٹیکٹ کی صورت میں موجود ہیں۔ بہت بوریت ہوئی تو پیغام بھیج دیا اور پھر پھیلنا شروع ہو گئے۔ (تصویر: پیکسلز)

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے

 

دیسی لوگوں کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ وہ جہاں تک ہو سکتا ہے پھیلتے ہیں اور پوری ڈھٹائی سے پھیلتے ہیں۔ ہمارے کچھ جاننے والے بھی ایسے ہیں۔

ہماری ایک پرانی جاننے والی جو سالوں پہلے اپنے شوہر، اس کے سال بعد اپنے بیٹے اور اس کے دو سال بعد اپنی بیٹی کے نام ہو گئی تھیں، پچھلے دنوں فارغ بیٹھی ہوئی اپنا فون دیکھ رہی تھیں۔ وٹس ایپ کھلا تو سامنے ہمارا سٹیٹس نظر آ گیا۔

وہ کچھ اس فراغت سے بیٹھی تھیں کہ ہمیں پیغام ہی بھیج دیا۔ ادھر ہم بھی فارغ بیٹھے تھے۔ ہم نے بھی جواب دے دیا۔

آگے سے وہ پھیل گئیں۔ کھٹ سے پیغام آیا، ’ابھی تک چین میں ہو؟‘

ان کے لیے یہ عام سا سوال تھا جو انہوں نے بس ایسے ہی اپنی فراغت میں ہم سے پوچھ لیا تھا۔ ہمارے لیے یہ سوال ہماری چِڑ بن چکا ہے۔ پچھلے دو سالوں میں دو ہزار لوگ ہم سے یہ سوال مختلف انداز میں پوچھ چکے ہیں۔

یہ سب لوگ وہ ہیں جن کا نہ ہم سے کوئی تعلق ہے اور نہ کوئی واسطہ۔ بس کبھی ملے ہوں گے، نمبروں کا تبادلہ ہوا ہو گا، اب ایک دوسرے کے فون میں محض ایک کانٹیکٹ کی صورت میں موجود ہیں۔ کبھی کوئی سٹیٹس نظر آیا اور بہت بوریت ہوئی تو پیغام بھیج دیا اور پھر پھیلنا شروع ہو گئے۔

کرنے کو ہزار باتیں کی جا سکتی ہیں۔ مثلاً موسم کیسا ہے۔ زندگی کیسی ہے۔ خوش لگتی ہو۔ زندہ لگتی ہو۔ جیتی رہو۔ پر وہ سب کچھ چھوڑ کر ایک ہی سوال پوچھیں گے، ’واپسی کب ہے؟‘ ’کب تک وہاں رہو گی؟‘

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اس سوال پر ہمارا پارہ اوپر چڑھ گیا۔ ہم نے جواب میں لکھا، ’ہاں اب تک چین ہی ہوں۔ تم بتاؤ، اب تک پاکستان میں ہی ہو؟‘

ہمارا جواب انہیں بالکل اچھا نہیں لگا۔ تکلفاً معافی مانگتے ہوئے کہنے لگیں، ’میں تو بس ایسے ہی پوچھ رہی تھی۔‘ ہم نے بھی کہہ دیا کہ ’ہم بھی ایسے ہی پوچھ رہے تھے۔‘

ان جیسے ہمارے اور بھی بہت سے جاننے والے ہیں جو اکثر اپنے فارغ وقت میں ہمیں پیغام بھیج دیتے ہیں۔ دو چار پیغامات کے بعد بوریت محسوس ہونے لگتی ہے تو یہی سوال پوچھ لیتے ہیں۔

ہم پہلے انہیں ہنستے ہوئے مناسب سا جواب دے دیتے تھے کہ جی بس دیکھیں کب آتی ہوں۔ ابھی تو بہت کام ہے۔

پھر ہر جگہ سے یہی سوال آنے لگا تو ہمیں اس سوال سے ہی چِڑ ہونے لگی۔ پھر جس نے بھی یہ سوال پوچھا ہم نے جواب میں اس سے وہ کچھ پوچھا کہ اسے اپنے سوال پوچھنے پر شرمندگی ہونے لگی۔

اسی طرح ایک صاحب جو ہر ہفتے ہم سے ہماری واپسی کا پوچھتے ہیں ایک روز پوچھنے لگے، ’تمہیں گھر والوں کی یاد نہیں آتی؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہم نے جواباً پوچھا، ’آپ روز دفتر جاتے ہیں۔ وہاں پورا دن گزارتے ہیں۔ اس دوران گھر والوں کی یاد نہیں آتی؟ اتنا بھی کیا دفتر جانا۔ اماں کے پاس بیٹھو، باتیں کرو۔ کیا پتہ کل کون ہو کون نہ ہو۔‘

ہمارے ’وہ‘ کہتے ہیں کہ ہمیں لوگوں کے ایسے سوالات پر چڑنا نہیں چاہیے بلکہ طریقے سے کوئی گول مول سا جواب دے دینا چاہیے۔

ہم اس فلاسفی کو نہیں مانتے۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم ایک مشکل ملک میں مشکل صورت حال کا شکار ہیں۔ ہم سے سوال پوچھنے والے اگر وہی سوال ہم سے کرنے سے پہلے گوگل سے کر لیا کریں تو شاید انہیں ہماری ذہنی حالت کا اندازہ ہو اور وہ ہم سے یہ سوال نہ پوچھا کریں۔

ہم چین سے باہر کسی نہ کسی طرح جا سکتے ہیں لیکن پھر چین واپس نہیں آ سکتے۔ یہ وہ کڑوی گولی ہے جو ہم ابھی کھانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ کوئی بہتر آپشن نظر آئے گا تو اس گولی کو کھانے کا سوچیں گے، فی الحال تو یہی بہترین ہے اور ہم اس میں خوش ہیں۔

جن کی جیب میں سبز پاسپورٹ کے علاوہ کوئی اور پاسپورٹ موجود ہے وہ تو آرام سے چلے جاتے ہیں کہ ان کے سامنے دنیا پڑی ہوئی ہے۔

ہمارے سامنے تو اپنا ملک اور اس کے لوگ موجود ہیں جو اب ہم سے پوچھتے ہیں ہم کب واپس آئیں گے۔ واپسی کے بعد پوچھیں گے واپس کیوں آئی، یہاں کیا رکھا تھا، وہیں رہ لیتی۔

ایسے لوگوں کا ہم اب کیا کریں۔

ایک حل تو یہ ہے کہ ان سے ان کے بارے میں سوالات پوچھنے شروع کر دیے جائیں۔ دوسروں کے بارے میں سب کچھ جاننے کی خواہش رکھنے والے اپنے بارے میں کچھ نہیں بتانا چاہتے۔ ان سے ان کے بارے میں پوچھا جائے تو انہیں فوراً وہ حدیں نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں جو دوسروں سے سوال پوچھتے ہوئے انہیں نظر نہیں آتیں۔

بات کا مقصد صرف یہ ہے کہ آپ کو نہیں معلوم کہ کسی کی زندگی میں کیا چل رہا ہے۔ پتہ بھی ہو تو آپ کا اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ بات برائے بات کرنے سے بہتر ہے کہ خداحافظ کہہ کر واپس اپنے کاموں میں لگ جایا جائے۔ اس سے آپ کی زندگی بھی سکون میں رہے گی اور دوسرے کی بھی۔

ورنہ پھینٹتے رہیں دہی۔ دو ہاتھ آپ لگائیں گے۔ چار ہاتھ اگلا لگا دے گا۔ پھر آپ کہیں گے دہی زیادہ پتلا ہو گیا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ