آپ مسلمان ہیں یا بدھسٹ؟

چینی بھائی نے ہم سے معافی مانگتے ہوئے پوچھا کہ ہم انہیں اپنے کپڑوں کی وجہ سے مسلمان لگ رہے ہیں لیکن ہمارے ہاتھ میں پکڑی ہوئی تسبیح انہیں بدھ مت کی علامت لگ رہی ہے۔ ہم آخر کون ہیں۔

چین میں کہیں نہ کہیں مذہب کی پرچھائی نظر آ ہی جاتی ہے۔ یہ تسبیح بھی اسی پرچھائی کا حصہ ہے (تصویر: پیکسلز)

کچھ سال پہلے کی بات ہے جب ہم اچھے خاصے سیدھے سادے ہوا کرتے تھے۔ سیدھے لوگ سیدھی راہ پر چلتے ہیں، ہم بھی چلتے تھے۔

ہم اس وقت یہیں بیجنگ میں مقیم تھے۔ اسی یونیورسٹی سے ماسٹر کر رہے تھے۔ چین میں عارضی قیام رکھنے والوں کو ہر سال اپنے ویزا کی تجدید کروانی پڑتی ہے۔

ہمارے ویزا کی معیاد کچھ دنوں میں ختم ہونے والی تھی۔ ہم اس دن اپنے ویزا کی تجدید کروانے جا رہے تھے۔

بیجنگ میں ٹیکسی کا استعمال طالب علموں کو مہنگا پڑتا ہے۔ اس لیے وہ اندرونِ شہر سفر کے لیے سب وے کا ہی استعمال کرتے ہیں۔ ہم بھی اس پر سوار اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھے۔

یہاں بتاتے چلیں کہ ہم اس زمانے میں برقع پہنا کرتے تھے۔ گھر سے پہلی بار نکلے تھے اور ایسا نکلے تھے کہ ملک ہی چھوڑ بیٹھے تھے۔ خاندان بھر کی عزت کا بار ہمارے کاندھوں پر تھا۔ ہم بھی پوری ذمہ داری کے ساتھ اس بوجھ کو سنبھالے ہوئے تھے۔

اب حال کچھ ایسا ہے کہ دن میں پانچ چھ بار کاندھوں کو جھٹکا دے کر ان پر دھری جانے والی ہر دیدہ و نادیدہ شے گرا دیتے ہیں۔

عام رواج کے مطابق ہمیں ملک سے باہر بھیجنے سے قبل کسی کے پلے باندھنے کی ہلکی سی کوشش بھی کی گئی تھی۔ عموماً ایسی کوششوں کے نتیجے میں لوگوں کو انگوٹھی ملا کرتی ہے۔ ہمیں برقع ملا تھا۔

گھر والوں نے کہا پہن لو۔ ہم نے پہن لیا۔

اس دن بھی ہم نے برقع پہنا ہوا تھا۔ رمضان کا مہینہ تھا۔ ہم روزے کی حالت میں تھے۔ رمضان میں آپ کو معلوم ہے کہ ہر نیک عمل کا ثواب دگنا ہو جاتا ہے۔

ہم نے بھی اسی سوچ کے تحت گھر سے نکلتے ہوئے ہاتھ میں تسبیح پکڑ لی کہ راستے میں کچھ پڑھتے جائیں گے۔

اب حال کچھ ایسا ہے کہ جسم کپڑوں اور کالے برقع تلے چھپا ہوا ہے۔ چہرے کے گرد حجاب لپیٹا ہوا ہے اور ہاتھ میں تسبیح پکڑی ہوئی ہے۔

ایسا حال شاید ہی اس کے بعد کبھی اپنایا ہو۔ اس وقت ہمیں اپنا آپ سیدھا جنت میں جانے کا اہل لگ رہا تھا۔

سب وے ہماری منزل کی طرف دوڑ رہی تھی اور ہم اس کے ایک ڈبے میں بیٹھے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی تسبیح کے دانوں پر ایک مقدس کلمہ دہرا رہے تھے۔

ہم ثواب کمانے میں کچھ اس قدر کھوئے ہوئے تھے کہ ہم سے چند سیٹوں کے فاصلے پر بیٹھے ہوئے ایک چینی نوجوان کا دیکھنا محسوس ہی نہیں کر پائے۔

کچھ سٹیشنز کے بعد ہمیں سب وے لائن تبدیل کرنی تھی۔ اس سٹیشن پر ٹرین رکی تو ہم اپنی نشست سے اٹھے اور دروازے سے باہر نکل کر دوسری سب وے لائن کی طرف چلنے لگے۔

اسی دوران کانوں سے ’ہیلو، ایکسکیوزمی‘ کی آواز ٹکرائی تو رک کر پیچھے دیکھا۔

ایک چینی نوجوان تھا جو شرماتے ہوئے ہمارے پیچھے ہمیں پکارتا ہوا آ رہا تھا۔

ایسا ہمارے ساتھ لاہور کی گلیوں میں بہت بار ہو چکا ہے۔ چین میں ایسی حرکتیں عموماً نہیں ہوا کرتیں۔

ہم نے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو اس نے بتایا کہ وہ ہمارے ہی ساتھ سب وے ٹرین میں تھا۔ وہ ہمیں اس طرح روکنے پر شرمندہ تھا تاہم وہ ہم سے کچھ پوچھنا چاہتا تھا۔

ہم گھر سے نکلنے سے پہلے ایک بار شیشے میں اپنی شکل ضرور دیکھ لیتے ہیں۔ اس دن بھی دیکھی ہوئی تھی۔ اس لیے ہمیں اس وقت کسی بالی ووڈ کے سین کے ہونے کی بالکل امید نہیں تھی۔

چینی بھائی نے ہم سے معافی مانگتے ہوئے پوچھا کہ ہم انہیں اپنے کپڑوں کی وجہ سے مسلمان لگ رہے ہیں لیکن ہمارے ہاتھ میں پکڑی ہوئی تسبیح انہیں بدھ مت کی علامت لگ رہی ہے۔ ہم آخر کون ہیں۔

ہم نے کہا کہ ہم کون ہیں، یہ تو ہم بھی نہیں جانتے۔ یہ تسبیح بہرحال ہماری ثقافت کا بھی حصہ ہے۔ بہت سے مسلمان تسبیح کے دانوں پر کلمات کا شمار کرتے ہیں۔ ویسے ہمیں یہ شمار اپنی انگلیوں پر کرنا چاہیے تاکہ وہ بروزِ قیامت جب ہمارے بارے میں بولیں تو ان کے پاس کہنے کے لیے کچھ اچھا بھی ہو۔

لیکن اس صورت میں اس شمار کا علم صرف انگلیوں اور فرشتوں تک ہی محدود رہ جاتا ہے، آس پاس موجود لوگوں کو خبر نہیں ہو پاتی۔ ان کی سہولت واسطے ہاتھ میں تسبیح پکڑنی پڑتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گرچہ ہم کسی کے ہمیں دیکھنے اور نوٹ کرنے کی امید نہیں کر رہے تھے، بس ثواب کے لالچ میں تسبیح اپنے ساتھ اٹھا لائے تھے۔

اس دن کے بعد ہم نے اپنے ارد گرد غور کرنا شروع کیا تو ہمیں ہر جگہ چھوٹی سی بھورے رنگ کی موٹے دانوں والی تسبیح نظر آنے لگی۔

کچھ لوگ اسے تیزی سے گھماتے رہتے تھے تو کچھ بس ایسے ہی کلائی میں پہنے رکھتے تھے۔

ویسے تو چین میں لوگ مذہب سے زیادہ پیسے کو مانتے ہیں۔ اس کے باوجود کہیں نہ کہیں مذہب کی پرچھائی نظر آ ہی جاتی ہے۔ یہ تسبیح بھی اسی پرچھائی کا حصہ ہے۔

زیادہ تر یہ بدھ مت سے عقیدت رکھنے والے لوگوں کے پاس نظر آتی ہے۔ کچھ لوگ اسے بطور فیشن اور سٹیٹس سمبل بھی استعمال کرتے ہیں۔

ہم نے اس دن گھر واپس آنے کے بعد وہ تسبیح سنبھال کر ایک دراز میں رکھ دی۔ ہمیں چین آئے ہوئے ایک سال ہی ہوا تھا۔ آنے سے پہلے ہمیں چین میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں بہت کچھ بتایا گیا تھا۔

ہم نہیں چاہتے تھے کہ ہم اپنے جسم پر موجود مذہبی علامتوں کی وجہ سے کسی مشکل کا شکار ہوں۔

ہم نے چین میں دو سال اس برقع میں گزارے۔ سوائے ایک دو معمولی سے واقعات کے کبھی کچھ نہیں ہوا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ