چین کی میٹھی پر بے رونق عید

چین میں ایک بار پھر عید کرونا کی عالمی وبا کی نظر ہو چکی ہے۔ پچھلے سال چین میں مسلمانوں نے کرونا کی وبا کے آغاز کے بعد پہلی بار ایک نارمل عید منائی تھی۔

13  مئی 2021 کی اس تصویر میں بیجنگ میں چینی مسلمان عید الفطر کی نماز ادا کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں(اے ایف پی)

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے

 

انڈپینڈنٹ اردو کے قارئین کو میری طرف سے بہت بہت کھائی چائی چیے کھوائلا۔

گھبرائیں مت۔ میں نے آپ کو چینی زبان میں کچھ ایسا ویسا نہیں کہا بلکہ میٹھی عید کی مبارک باد دی ہے۔ چینی زبان میں عید مبارک کو کھائی چائی چیے کھوائلا کہا جاتا ہے۔

چین میں ایک بار پھر عید کرونا کی عالمی وبا کی نظر ہو چکی ہے۔ پچھلے سال چین میں مسلمانوں نے کرونا کی وبا کے آغاز کے بعد پہلی بار ایک نارمل عید منائی تھی۔

مساجد کھول دی گئی تھیں۔ لوگوں نے عید کی نماز ایک اجتماع کی صورت میں پڑھی تھی۔ اپنے دوستوں اور رشتے داروں کے ساتھ دعوتیں اڑائی تھیں۔

اس سال چین میں ایک بار پھر وہی پابندیاں نافذ ہو چکی ہیں جو اس عید سے پہلے نافذ تھیں۔

اس سال مساجد رمضان میں بھی بند رہی ہیں۔ عید کی نماز بھی بہت سی جگہوں پر نہیں ہو سکی ہے۔

بیجنگ میں جنوبی سوڈان کا سفارت خانہ ہر سال عید پر ایک بڑا اجتماع کرتا ہے۔ بہت سے مسلمان عید کی نماز پڑھنے وہیں جاتے ہیں۔

اس سال وہ اجتماع پہلے جیسا بڑا تو نہیں ہوا لیکن ہوا ضرور ہے۔

پچھلے ہفتے بیجنگ میں مقیم تمام افراد کے تین کرونا ٹیسٹ کیے گئے تھے۔ اس ہفتے پھر سے تمام شہریوں کے تین کرونا ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے کا پہلا ٹیسٹ کل یعنی منگل کو ہوا تھا۔ دوسرا آج ہو رہا ہے اور تیسرا کل بروز جمعرات ہوگا۔

تین مئی سے بیجنگ میں ہونے والے تمام کرونا ٹیسٹ مفت کر دیے گئے ہیں تاکہ عوام بغیر کسی اضافی خرچ کے حکومت کے کہنے کے مطابق اپنے ٹیسٹ کروا سکیں۔

ان ٹیسٹ کے منفی نتائج دکھائے بغیر بیجنگ کا کوئی بھی رہائشی عوامی مقامات میں داخلہ حاصل نہیں کر سکتا۔ حتیٰ کہ بس کے ذریعے سفر بھی نہیں کر سکتا۔ سو مجبوراً اٹھنا پڑتا ہے اور ٹیسٹ کروانا پڑتا ہے۔

بیجنگ میونسپل ہیلتھ کمیشن کے مطابق 22 اپریل سے بیجنگ میں کرونا کے 400 کیسز مثبت آ چکے ہیں۔ عالمی سطح پر اتنے سے کیس کچھ زیادہ نہیں ہیں لیکن چینیوں کے مطابق ان کے ملک میں آفت آئی ہوئی ہے۔

حکام کے مطابق چین کے دارالحکومت میں کرونا کے پھیلاو کی ایک بڑی وجہ ریستوران ہیں۔

لوگ ریستورانوں میں ہیلتھ کوڈ دکھا کر ہی داخل ہوتے ہیں۔ تاہم، وہاں انہیں کھانا کھانے کے لیے ماسک اتارنا پڑتا ہے۔

چین میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے کرونا کے خلاف ویکسین نہیں لگوائی ہے۔ ان کی وجہ سے شہر میں کرونا کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے۔

پیر کی دوپہر تک چینی حکام بیجنگ کو 10 ہائی رسک علاقوں اور 26 میڈیم رسک علاقوں میں تقسیم کر چکے ہیں۔

ہفتے کو چین میں عالمی یومِ مزدور کی مناسبت سے پانچ روزہ تعطیلات کا آغاز ہوا تھا۔ مسلمان خوش تھے کہ ان کی عید انہی چھٹیوں میں آ رہی تھی۔

ہم نے بھی تھوڑی سی منصوبہ بندی کر لی تھی۔ پھر اعلان ہوا کہ ان چھٹیوں میں بیجنگ کے ریستوران صرف کھانا ڈیلیور کر سکتے ہیں۔ لوگ وہاں جا کر کھانا نہیں کھا سکتے۔ ساری منصوبہ بندی دھری کی دھری رہ گئی۔

عموماً پردیس میں عید ایسی ہی ہوتی ہے۔ چین پردیس میں بھی ایک الگ مقام رکھتا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی آبادی اس ملک میں مقیم ہے۔ تاہم، ملکی نظام، معاشرتی ڈھانچہ اور اس کے ساتھ کرونا کی وبا کے خلاف ان کا رویہ یہاں مقیم غیر ملکی افراد کو ان کی زندگی کا تلخ ترین تجربہ دے رہے ہیں۔

2020 کے آغاز سے چین میں مقیم غیر ملکی افراد ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہم نے اس دوران ایسے لوگوں کو بھی چین سے رخصت ہوتے ہوئے دیکھا جو اس سے پہلے چین سے نکلنے سے انکاری تھے۔

ہمارے ایک دوست پچھلے 12 سال سے چین میں مقیم تھے۔ ہسپانوی زبان کے ماہر تھے۔ انگریزی کا لہجہ بھی اچھا تھا۔ چینی زبان بھی جانتے تھے۔

وہ یہاں پی ایچ ڈی کرنے آئے تھے۔ پی ایچ ڈی کے دوران انہوں نے چین میں انگریزی زبان کی تعلیم دینا شروع کی۔ بدلے میں انہیں جو پیسے ملے انہیں دیکھتے ہوئے انہوں نے اپنا سارا دھیان انگریزی پڑھانے پر ہی لگا لیا۔

ان بارہ سالوں میں انہوں نے چینیوں کو انگریزی سکھا سکھا کر اپنے بنک اکاونٹ جہاں تک بھر سکتے تھے بھرے۔ کرونا کی وبا آئی تو ان کا کام کم ہوتے ہوتے بالکل ختم ہو گیا۔ دو چار آن لائن کلاسز رہ گئی تھیں۔ وہی پڑھاتے رہے۔

ایک دن دل اکتایا تو اپنا سامان باندھ کر واپس چلے گئے۔

ہمارے ساتھ ساتھ چینی عوام بھی ان پابندیوں سے تنگ آ چکے ہیں۔ ویک اینڈ پر ایک چینی دوست نے اپنے گھر کھانے پر مدعو کیا تھا۔

دعوت قبول کر لی۔ چلی بھی گئی پر دل ڈرتا رہا کہ اس دوران وہ علاقہ لاک ڈاون میں ڈال دیا گیا تو کیا ہوگا۔

شکر ایسا نہیں ہوا۔ دوست نے بتایا کہ چینیوں کا گھر یہی ہے۔ پھر بھی وہ تنگ آ چکے ہیں۔ نہ ملک سے باہر جا سکتے ہیں۔ نہ ملک کے اندر آزادی سے گھوم سکتے ہیں۔

ہم جب چاہیں چین کو خدا حافظ کہہ کر واپس لوٹ سکتے ہیں۔ چینیوں نے یہیں رہنا ہے۔ ان کے پاس ان پابندیوں کو ماننے کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ