خیبر پختونخوا: پبلک سروس کمشن کی جانب سے فیل شدہ امیدوار پاس

پشاور ہائی کورٹ کے اس فیصلے میں کمیشن کو 60 ہزار روپے جرمانہ بھی ادا کرنے کو کہا گیا ہے جو تینوں امیدواروں کو 20 ہزار روپے فی کس ادا کیا جائے گا۔

درخواست گزار ذوالقفار نے رٹ پٹیشن میں لکھا تھا کہ خیبر پختونخوا پبلک سروس کمیشن نے جان بوجھ کر ان کے ٹیسٹ میں سوالوں کے جوابات غلط قرار دیے تھے۔

خیبر پختونخوا پبلک سروس کمیشن کے منعقد کردہ ٹیسٹ برائے ایسوسی ایٹ پروفیسرز میں ذوالفقار علی نے پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔ اس کے برعکس کمیشن کے نتائج میں ان کو فیل ظاہر کیا گیا تھا۔  یہ بات تب پتہ چلی جب ذوالفقار نے ٹیسٹ کے نتائج کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔

ٹیسٹ کے بعد سامنے آنے والے نتائج میں ذوالفقار سمیت دو دیگر طالب علم بھی فیل کیے گئے تھے لیکن جب عدالت میں ان کے پرچے پیش ہوئے اور پھر ان کو متعلقہ مضمون کے ماہرین سے چیک کروایا گیا تو پتہ چلا کہ ٹیسٹ کے لیے دیے گئے جوابات یا انسر کیز غلط دیے گئے تھے۔

ذولفقار علی کے وکیل طارق افریدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ذوالفقار پچھلے 13 برس سے ایک سرکاری کالج میں لیکچرز ہیں اور ایم اے گولڈ میڈلسٹ بھی ہیں۔ طارق افریدی نے بتایا کہ جب ٹیسٹ کے نتائج آگئے تو ان میں ذوالفقار سمیت دیگر دو طلبا فیل تھے۔

انھوں نے مزید بتایا کہ ’ذوالفقار کو یقین تھا کہ انھوں نےٹیسٹ بہتر کیا ہے اور وہ فیل نہیں ہو سکتے۔ اس لیے انہوں نے عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔‘

درخواست گزار ذوالقفار نے رٹ پٹیشن میں لکھا تھا کہ خیبر پختونخوا پبلک سروس کمیشن نے جان بوجھ کر ان کے ٹیسٹ میں سوالوں کے جوابات غلط قرار دیے تھے۔

عدالت نے کیس میں کمیشن کے صوبائی سربراہ کو طلب کیا۔ عدالت میں ہونے والی پیشی کے دوران کمشن کے سربراہ نے ادارے کی غلطی تسلیم کرتے ہوئے ان امیدواروں کو شارٹ لسٹ امیدواروں میں ڈالنے کا وعدہ کرلیا۔

عدالتی فیصلے میں کمیشن کو 60   ہزار روپے جرمانہ بھی ادا کرنے کو کہا گیا جو تینوں امیدواروں کو فی کس 20  ہزار ادا کیا جائے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

طارق افریدی نے بتایا کہ جب پرچوں کو عدالت میں پیش کر کے ماہرین سے چیک کروایا گیا تو 52   سوالات کے جوابات غلط کر دئیے گئے تھے (بوجہ غلط آنسر کی ) جبکہ ان کے موکل نے ان سوالوں کے جوابات کی درست نشاندہی کی تھی۔

طارق افریدی نے بتایا کہ ایسے مسئلے اس وجہ سے پیش آتے ہیں کیوں کہ کمیشن کی جانب سے پرچے چیک کرنے والوں کو جو آنسر کیز دی جاتی ہیں (جن سے ملا کر جوابات ٹھیک اور غلط جانچے جاتے ہیں) ان میں غلطی ہو جاتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ امیدوار اپنے ٹیسٹ کو بعد میں چیک نہیں کر سکتے ۔

تین درخواست گزاروں میں سے ایک نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہیں بالکل یقین تھا کہ کمیشن نے مارکنگ میں غلطی کی ہے اور اسی وجہ سے انھوں نے عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔

انھوں نے مزید بتایا کہ  اب وہ مطمئن ہیں کہ عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ انھوں نے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ پبلک سروس کمیشن کو طریقہ کار میں تبدیلی کرنی چاہیے کیونکہ پتہ نہیں ایسے شاید کئی امیدوار ہوں گے جو کمیشن کے زیراہتمام ٹیسٹ تو ٹھیک دیتے ہوں گے لیکن بعد میں کمیشن ہی کا نتیجہ آخری تسلیم کیا جاتا ہے، چاہے وہ غلط ہو ۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان