کراچی دھماکے میں ملوث شخص ایرانی تربیت یافتہ تھا: پولیس

حکام کا کہنا ہے کہ کراچی کے علاقے صدر میں ہونے والے دھماکے میں ملوث اللہ ڈنو نامی دہشت گرد سی ٹی ڈی کی کارروائی میں مارا گیا ہے۔

دھماکے کے بعد جائے وقوع پر پولیس سمیت بم ڈسپوزل سکواڈ کو طلب کر لیا گیا ہے (تصویر: ایدھی فاؤنڈیشن)

کراچی پولیس حکام کا کہنا ہے کہ کراچی کے علاقے صدر میں ہونے والے دھماکے میں ملوث اللہ ڈنو نامی دہشت گرد سی ٹی ڈی کی کارروائی میں مارا گیا ہے۔

کراچی میں صوبائی مشیر اطلاعات مرتضیٰ وہاب کے ہمراہ جمعرات کو ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈی آئی جی سی ٹی ڈی خرم علی نے سکرین پر چند ویڈیوز اور تصاویر دکھائیں جبکہ ایک آڈیو کلپ بھی صحافیوں کے ساتھ شیئر کیا۔

نیوز کانفرنس میں صحافیوں کو دکھائی جانے والی ویڈیوز میں علی ڈنو کی نقل و حرکت کے بارے میں بتایا گیا۔

واضح رہے کہ رواں ماہ 12 مئی کو کراچی کے علاقے صدر میں دھماکہ ہوا تھا جس کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک اور 13  افراد کے زخمی ہو گئے تھے۔

اس حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے ڈی آئی جی سی ٹی ڈی خرم علی کا کہنا تھا کہ اللہ ڈنو آئی ای ڈی بنانے کا ماہر تھا اور کئی دھماکوں میں ملوث رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’اللہ ڈنو ایران سے تربیت لے کر آیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ دھماکہ کرنے سے قبل اللہ ڈنو تقریباً پانچ کلومیٹر تک سائیکل کے ساتھ چلتا رہا اور اس دوران اس نے متعدد مرتبہ دھماکہ کرنے کی کوشش بھی کی۔

’اس کے بعد وہ ایک جگہ پر بیٹھ گیا اور جیسے ہی نیلی لائٹ والی گاڑی آئی تو اس نے دھماکہ کر دیا اور خود رکشے پر سوار ہو کر وہاں سے چلا گیا۔‘

اس حوالے سے انہوں نے مزید بتایا کہ گذشتہ شب (18 مئی) کو کراچی میں موچکو تھانے کی حدود میں سی ٹی ڈی کی ایک کارروائی میں اللہ ڈنو ولد نواب علی مارا گیا ہے۔

سی ٹی ڈی کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق مارے جانے والے افراد میں ایک اللہ ڈنو اور دوسرے شخص کی شناخت نواب علی کے نام سے ہوئی ہے۔

پریس ریلیز کے مطابق ملزمان کا تعلق سندھ علیحدگی پسند تنظیم کالعدم سندھ ریولوشنری آرمی (ایس آر اے) کے اصغر شاہ گروپ سے ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ مارے جانے والے دہشت گردوں کو کارروائیوں کے لیے ایس آر اے کے جیز کیش اکاؤنٹ کے ذریعے رقم بھیجی گئی تھی۔

کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران صوبائی مشیر اطلاعات مرتضیٰ وہاب نے بتایا کہ ’اللہ ڈنو کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے پہلے بھی گرفتار کیا تھا تاہم انہیں عدالت سے ضمانت پر چھوڑ دیا گیا تھا۔‘

مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے جب سوال کیا جاتا ہے تو وہ بھی یہی شکوہ کرتے ہیں کہ ایسے افراد کو پکڑ تو لیا جاتا ہے تاہم بعد میں انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان