سعید انور کی وہ اننگز جسے دنیا کبھی نہ بھول پائے گی

سعید انور کی یہ اننگز اس لحاظ سے قابل ذکر اور یادگاری ہے کہ اس زمانے میں سنچری بنالینا کافی سمجھا جاتا تھا اور کوئی بھی بلے باز 100 رنز کا ہندسہ پار کرتے ہی لاپرواہ ہوجاتا تھا اور کسی بھی لمحے آؤٹ ہوجاتا تھا تاہم سعید انور اس دن شاید کچھ اورسوچ کر آئے تھے

24 مارچ 1999 کی اس تصویر میں پاکستانی بلے باز سعید انور کو بھارت کے خلاف ایک روزہ میچ کے دوران بلے بازی کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے(اے ایف پی)

چنئ میں مئی کا مہینہ سخت گرم اور مرطوب ہوتا ہے سمندر سے قریب ہونے کے باعث ہوا میں آکسیجن کم ہوجاتی ہے اور سانس لینا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔

ایسے میں اگر سوئیوں کی مانند چبھتی ہوئی دھوپ میں کرکٹ کھیلنا پڑجائے تو میدان میں جانے سے پہلے ہی پسینے آنے لگتے ہیں۔

لیکن ماضی کے مایہ ناز اوپنر سعید انور کے لیے اس گرمی میں بھی کھیلنا مشکل نہ تھا اور جس طرح انہوں نے آج کے دن شانداربیٹنگ کی اسے کرکٹ کی تاریخ میں یادگار اننگز کے طور ہر یاد رکھا جائے گا۔

سعید انور کی 194 رنز کی اننگز اگرچہ ڈبل سنچری میں تو نہ بدل سکی لیکن بہت سالوں تک سب سے بڑا سکور رہی اور اس زمانے میں بہترین بلے باز ہونے کے باوجود 14 سال تک کوئی عبور نہ کر پایا۔ سعید انور کی اننگز کا جواب 2010 میں سچن ٹنڈولکر نےڈبل سنچری بناکر دیا تھا۔

اب تک ون ڈے کرکٹ میں آٹھ ڈبل سنچریاں بن چکی ہیں جن میں تین روہیت شرما کی ہیں جبکہ ایک روزہ کرکٹ کا سب سے بڑا انفرادی سکور روہیت شرما کا ہی ہے جو انہوں نے 264 رنز کی اننگز سری لنکا کے خلاف کھیل کر بنایا تھا۔

پاکستان کے فخر زمان واحد پاکستانی ہیں جنھوں نے ڈبل سنچری بنا رکھی ہے۔

سعید انور کی میراتھن اننگز

سعید انور کی یہ اننگز اس لحاظ سے قابل ذکر اور یادگاری ہے کہ اس زمانے میں سنچری بنالینا کافی سمجھا جاتا تھا اور کوئی بھی بلے باز 100 رنز کا ہندسہ پار کرتے ہی لاپرواہ ہوجاتا تھا اور کسی بھی لمحے آؤٹ ہوجاتا تھا تاہم سعید انور اس دن شاید کچھ اورسوچ کر آئے تھے۔

سعید انور کہتے ہیں کہ انڈیپینڈنس کپ کے پہلے دو میچ ہم ہار گئے تھے اور گرمی اور شکستوں کے باعث کھلاڑی پریشان تھے۔

کپتان رمیز راجہ نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا جو ہمارے لیے اطمینان کا باعث تھا کیونکہ پچ بالکل سپاٹ نظر آرہی تھی اور بڑے سکور کی امید تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ اس دن میں کپتان رمیز راجہ کا بیٹ لے کر گیا تھا جو انہوں نے بھارت میں خریدا تھا۔ میرے مدنظر یہ تھا کہ میں بھارتی بولرز کو ابتدا سے دباؤ میں رکھوں اور تیزی سے رنز کرتا رہوں

میرے دوسرے ساتھی شاہد آفریدی جلدی آؤٹ ہوگئے۔

لیکن رمیز راجہ کے ساتھ میں نے جب 92 رنز کی شراکت کرلی تو حوصلہ بڑھ گیا۔

اس دن میرے لیے آف سائڈ پر کھیلنا آسان لگ رہا تھا۔ پرساد کو جب ایک اوور میں پوائنٹ پر مسلسل تین چوکے مارے تو مجھے لگا آج بیٹ اور دماغ ساتھ چل رہے ہیں۔

بھارتی ٹیم نے تین سپنرز رکھے تھے اس لیے میں تیار تھا کہ مجھے زیادہ طاقت استعمال کرنی ہوگی لیکن میری خوش قسمتی تھی کہ انیل کمبلے تیز گیند کررہے تھے جس سے مجھے سکوائر آف وکٹ کھیلنا آسان ہو رہا تھا۔

سنچری کے قریب پہنچ کر مجھے لگا کہ شاید آج مجھے اکیلے ہی سکور کرنا ہوگا کیونکہ اعجاز احمد مڈل نہیں کر پا رہے تھے اس لیےمیں نے کہا کہ مجھے سٹرائیک دو۔

سعید انور اس دن اس طرح کھیل رہے تھے جیسے اپنی گلی میں بیٹنگ کررہے ہوں وہ جب چاہتے جس گیند کو جہاں چاہتے کھیل دیتے۔

سعید انور کی خاصیت یہ تھی کہ اگر پوری فیلڈنگ قلعہ بند ہو کر بھی آف سائیڈ پر کھڑی ہوجائے تو وہ کہیں سے بھی شاٹ کھیل کر گیند کو باؤنڈری سے باہر پہنچا دیں گے۔

سعید انور کی 21 مئی 1997 کو چنئ میں اننگز کور ڈرائیوز کا شاہ کار تھی۔

شاہد آفریدی نے کتنی مدد کی؟

سعید انور کو 18ویں اوور میں دھچکا لگا جب ان کی ران کا پٹھہ درد کرنے لگا اور دوڑنے میں پریشانی ہورہی تھی۔ اس موقعے پر شاہد آفریدی ان کے لیے رنر کے طور پر میدان میں آ گئے۔

ناقدین تنقید کرتے ہیں کہ سعید انور کی اس بڑی اننگز کا سہرا شاہد آفریدی کے سر ہے جنھوں سخت گرمی اور حبس میں سعید کوموقع دیا کہ وہ سکون سے کھیل سکیں لیکن ناقدین بھول جاتے ہیں کہ 118 رنز انہوں نے 22 چوکوں اور پانچ چھکوں سے حاصل کیے تھے۔

انہوں نے جس بے دردی سے بھارتی بولنگ کو تتر بتر کیا تھا اس پر دوسرے دن بھارتی میڈیا دوسرے دن اپنی ٹیم پر چیخ پڑا تھا۔

پاکستان نے یہ میچ جیت لیا تھا اور اس کا سہرا سعید انور کی بیٹنگ کے سر تھا جو ڈبل سنچری تو نہ کرسکے لیکن چنئ کے چناسوامی سٹیڈیم میں موجود ہزاروں تماشائیوں کو زبردست داد دینے پر مجبور کردیا تھا۔

بقول سنیل گواسکر اور روی شاستری کے کہ آج اکیلے سعید انور نے میلہ لوٹ لیا۔

سعید انور نے مجموعی طور پر 247 ون ڈے مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کی اور 20 سنچریوں کی مدد سے 8824 رنز بنائے۔ وہ جس تیزی سے سنچریاں بنارہے تھے اس سے لگتا تھا کہ تاریخ کے سب سے زیادہ سنچریاں بنانے والے بلے بازبن جائیں گے لیکن2001 میں ان کی بیٹی کی وفات نے انہیں یکسر بدل کر رکھ دیا اور اس سانحے نے کرکٹ سے دل اچاٹ کردیا۔

این ای ڈی یونیورسٹی سے کرکٹ شروع کرنے والے سعید انور کو جب 1989 میں عمران خان کی خواہش پر قومی ٹیم میں شامل کیا گیا تو ان کا پہلا میچ ویسٹ انڈیز کے خلاف پرتھ میں تھا جہاں مارشل اینڈ کمپنی کے خلاف وہ جلد ہی آؤٹ ہوگئے تھے لیکن عمران خان ان کی صلاحیتوں کے معترف رہے۔

عمران خان انہیں ورلڈ کپ کی ٹیم میں شامل کرنا چاہتے تھے لیکن فٹنس مسائل کے باعث شامل نہ ہوسکے۔

سعید انور نے پاکستان کے لیے بہت سی یادگار اننگز کھیلی ہیں لیکن اعداد وشمار کے حساب سے وہ اتنے آگے نظر نہیں آتے کیونکہ ان کی بیٹنگ بے خوف اور جارحانہ ہوتی تھی۔ وہ آج بھی پاکستان کے تیسرے سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے بازہیں اور ان کوبائیں ہاتھ کے ایک سٹائلش بلے باز کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

سعید انور کی چنئ کی 194 رنز کی اننگز کرکٹ کی تاریخ کی چند بہترین اننگز میں سے ایک یادگار اننگز ہے اور دنیا کبھی بھول نہیں پائے گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ