پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ ان امریکی سفارت کار کو برطرف کیا جانا چاہیے جنہوں نے ’پاکستانی سفیر سے باضابطہ ملاقات میں کہا تھا کہ اگر آپ تحریک عدم اعتماد میں اپنے وزیراعظم عمران خان سے چھٹکارہ حاصل نہیں کرتے تو آپ کو اس کے نتائج بھگتنے ہوں گے۔‘
وہ امریکی ٹی وی چینل سی این این کی نامہ نگار بیکی اینڈرسن کو انٹرویو دے رہے تھے۔
بیکی اینڈرسن نے اس انٹرویو کا ایک حصہ ٹویٹ بھی کیا ہے جس میں پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان نے اس بات پر زور دیا پاکستانی سفیر اور جنوبی اشیا سے متعلق امریکی انڈر سیکریٹری ڈونلڈ لو کے درمیان سات مارچ 2022 کو ایک باضابطہ ملاقات ہوئی تھی جس کے ’دونوں جانب سے نوٹس لیے گئے تھے‘ اور اس وقت عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش نہیں کی گئی تھی لیکن امریکی سفارت کار کو اس بارے میں علم تھا۔
عمران خان نے انٹرویو میں مزید کہا کہ ’اس ملاقات میں مزید کہا گیا کہ ’اگر آپ تحریک عدم اعتماد میں ان سے چھٹکارہ حاصل کر لیتے تو سب معاف کر دیا جائے گا۔‘
عمران خان نے انٹرویو کے دوران کہا کہ ’ان سفارت کار کو ’برے اخلاق اور سراسر تکبر‘ پر مبنی رویے کی بنا پر برطرف کیا جانا چاہیے جو ایک 22 کروڑ عوام کے ملکی سفیر کو کہتے ہیں کہ اپنے وزیراعظم سے چھٹکارہ حاصل کریں۔‘
In an exclusive interview, @ImranKhanPTI tells me a top US diplomat needs to resign for his role in what he claims was an American-backed plot to remove him from office. More on that and his future political plans here: pic.twitter.com/8ZU5coAq5l
— Becky Anderson (@BeckyCNN) May 23, 2022
بیکی اینڈرسن نے ان سے سوال کیا آپ نے پہلے یہ بات عام کیوں نہیں کی تو عمران خان کا کہنا تھا کہ انہوں نے سائفر کو اپنی کابینہ کے سامنے پڑھ کر سنایا پھر اسے قومی سلامتی کونسل کے سامنے رکھا جس میں مسلح افواج کے سربراہان موجود تھے۔
عمران خان نے سی این این کو دیے جانے والے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ’یہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں واضح مداخلت ہے۔‘
اس پر میزبان نے ان سے سوال کیا اس وقت کے وزیراعظم کے طور پر آپ نے امریکی صدر یا وزیر خارجہ سے رابطہ کیا؟
اس سوال کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ’قومی سلامتی کونسل نے فیصلہ کیا کہ وہ احتجاج کریں گے اور امریکی حکومت کو پاکستان اور واشنگٹن میں ڈیمارش دیا جائے گا۔‘
ایک سوال کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ان کے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ بڑے اچھے تعلقات تھے لیکن جب بائیڈن انتظامیہ نے اقتدار سنبھالا اور اسی کے ساتھ افغانستان کا واقعہ پیش آیا تو انہیں اس بات کا علم نہیں کہ کیوں انہوں نے عمران خان سے کبھی رابطہ نہیں کیا، ’مجھے نہیں معلوم کہ پاکستان میں امریکی سفیر کیوں نہیں تھے۔‘
سابق وزیراعظم پاکستان سے سوال کیا گیا کہ جس دن روس نے یوکرین سے جنگ شروع کی آپ اس وقت روس میں موجود تھے یہ بظاہر اچھا نہیں دکھا تو عمران خان نے کہا کہ ’اچھا نہیں دکھا لیکن وہ دورہ بہت عرصہ قبل طے کیا گیا تھا اور پاکستان میں تمام سٹیک ہولڈرز اس پر رضامند تھے، فوج روسیوں سے ہارڈ ویئر چاہتی تھی، ہم گندم چاہتے تھے، گیس پائپ لائن جو چھ سال سے زیر بحث تھی جب میری حکومت بنی بھی نہیں تھی۔۔۔ تو یہ دورہ بہت پہلے سے طے تھا۔‘
عمران خان نے کہا کہ ’مجھے کیسے معلوم ہوگا کہ جس دن میں ماسکو میں اتروں گا اسی دن صدر پوتن یوکرین پر چڑھائی کر دیں گے۔‘
اس پر ان سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ کو اس دورے پر اب افسوس ہے تو عمران خان نے کہا ’اگر مجھے چڑھائی کے بارے میں معلوم ہوتا اور پھر میں وہاں جاتا تو مجھے افسوس ہوسکتا تھا کیوں کہ میں فوجی حل کے حق میں نہیں ہوں۔‘
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’جیسے جیسے تفصیلات عام ہو رہی ہیں، سائفر اور ڈونلڈ لو کے تبصرے، پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات سر اٹھا رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ایران، وزیراعظم مصدق اور جنوبی امریکی ریاستوں میں ’رجیم چینجز‘ کی وجہ سے جب عوام پر ’غیر مقبول‘ حکومتیں نازل کی جاتی ہیں تو امریکہ مخالف جذبات جنم لیتے اور پاکستان میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔