عامر خان کی بیٹی اور اس کی بکینی

عامر خان کی 25 سالہ بیٹی اپنا برا بھلا سمجھتی ہے، وہ جو چاہے پہن سکتی ہے مگر اس کے باپ کا اس حالت میں ساتھ کھڑا ہونا سمجھ میں نہیں آتا۔

عامر خان اور ان کی بیٹی ایرا خان 22 اکتوبر 2022 کو ممبئی میں ایک فلم کے پریمیئر پر (اے ایف پی)

بھارتی اداکار عامر خان کی بیٹی نے گذشتہ دنوں اپنی 25ویں سالگرہ منائی۔ سالگرہ کی تقریب کی تصاویر میں نے سوشل میڈیا پر دیکھیں، ان تصاویر میں عامر خان اپنی بیٹی کے ساتھ کھڑے ہیں، ان کی بیٹی نے بکینی پہنی ہوئی ہے اور وہ کیک کاٹ رہی ہے، سب لوگ تالیاں بجا رہے ہیں۔

’بکینی پہنی ہوئی ہے‘ سے یوں لگتا ہے جیسے یہ سچ مچ کا کوئی لباس ہو جبکہ حقیقت میں اس ’لباس‘ کی تیاری میں شاید نصف گز کپڑا بھی نہیں لگتا۔ بظاہر یہ کوئی خاص بات نہیں، دنیا بھر میں لڑکیاں تیراکی کرتے ہوئے بکینی پہنتی ہیں اور یہ چونکہ ’پول پارٹی‘ تھی اس لیے عامر خان سمیت سبھی تیراکی کے ’لباس‘ میں تھے۔

اگر یہ تصاویر کسی اور اداکار کی ہوتیں تو شاید میں حیران نہ ہوتا مگر عامر خان کو فلم انڈسٹری میں ’مسٹر پرفیکٹ‘ کہا جاتا ہے اور اس کی وجہ نہ صرف ان کی فلموں کے موضوعات ہیں بلکہ ان کے سوچنے کا انداز بھی ہے۔ وہ جو کام کرتے ہیں، اچھوتے اور منفرد انداز میں کرتے ہیں۔

انہوں نے ٹی وی پر ایک پروگرام کی میزبانی کی تو اس میں بھی اپنے تخلیقی جوہر دکھائے، کسی اور بھارتی اداکار نے ایسا اعلیٰ پائے کا پروگرام شاید کبھی نہیں کیا۔ ان کی فلم کو تقریباً ہر سال ایوارڈ کے لیے نامزد کیا جاتا ہے مگر وہ کبھی ایوارڈ کی تقریب میں شرکت نہیں کرتے۔

ان کے نظریات میں بھی بظاہر کوئی کھوٹ نہیں، وہ ایک سیکیولر ذہن کے آزاد خیال انسان ہیں، مسلمان ہیں، حج کا فریضہ ادا کر چکے ہیں، دو شادیاں کر چکے ہیں، دونوں بیویوں سے علیحدگی ہو چکی ہے اور غالباً دونوں ہی خواتین مسلمان نہیں تھیں۔
میں نے بہت سوچا، لبرل ازم کے تمام پہلو کھنگالے، آزاد خیالی کے گھوڑے دوڑائے، شخصی آزادی کی دیوار پر بھی چڑھ کر دیکھا مگر مجھے سمجھ نہیں آئی کہ یہ کس قسم کا طرز زندگی ہے جس میں باپ سوئمنگ کے لباس میں ’ملبوس‘ بیٹی کو دیکھ کر تالیاں بجاتا ہے اور پھر یوں ظاہر کرتا ہے جیسے یہ کوئی معیوب بات نہیں، اور باپ بھی کوئی عام شخص نہیں بلکہ عامر خان جیسا سوچنے سمجھنے والا ذہین شخص!

مغربی معاشروں میں یہ عام بات ہے مگر عامر خان بہرحال مغربی نہیں اور اپنی تمام تر آزاد خیالی کے باوجود وہ آج کی تاریخ تک عملاً مسلمان ہیں (حج کرنے والے کے بارے میں آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ مسلمان نہیں)۔ عامر خان کے اس فعل کے ’دفاع ‘ میں مجھے ایک ہی ’دلیل‘ سوجھی کہ وہ اپنی بیٹی کی آزادی کی راہ میں حائل نہیں ہونا چاہتے، ان کی بیٹی ایک علیحدہ شخصیت کی حامل عورت ہے اور اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس قسم کا چاہے لباس پہنتے۔

تکنیکی اعتبار سے تو یہ دلیل درست ہو سکتی ہے مگر اخلاقی اعتبار سے اس میں سقم ہے۔ شخصی آزادی کے نام پر کیا یہ ضروری تھا کہ جب اس کی بیٹی (کسی بھی وجہ سے) بکینی پہنے تو عامر خان بھی اس کے ساتھ کھڑا ہو؟ یہ فیصلہ تو عامر خان کا اپنا تھا نہ کہ اس کی بیٹی کا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اور پھر شخصی آزادی کی حدود کیا بکینی تک آ کر رک جاتی ہیں؟ دنیا میں تو ’برہنہ ساحل‘ بھی ہوتے ہیں تو کیا اگلی سالگرہ وہاں بھی منائی جا سکتی ہے؟ یقیناً یہ عامر خان فیملی کا ذاتی معاملہ ہے، وہ جہاں چاہیں جیسے چاہیں اپنی پارٹی کر سکتے ہیں مگر عامر خان چونکہ ایک سلیبرٹی ہیں اور کروڑوں لوگ ان کے پرستار ہیں لہٰذا ان کے نظریات، ان کا کردار اور ان کی باتیں لوگوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔

یہ کام اجے دیوگن یا سنی دیول نے کیا ہوتا تو شاید اتنا عجیب نہ لگتا مگر عامر خان کوئی عام فلمی اداکار نہیں، ان کا زندگی کے بارے میں اپنا فلسفہ ہے، وہ سوچا سمجھا نظریہ رکھتے ہیں، ان کی فلموں میں عوام کے لیے پیغام ہوتا ہے، وہ عورت کی آزادی اور خود مختاری کے قائل ہیں، اس لیے جب وہ اپنی بکینی پہنی ہوئی بیٹی کےساتھ کھڑے ہوتے ہیں تو یہ بات محض ان کا یا ان کی بیٹی کا ذاتی فعل کہہ کر نظر انداز نہیں کی جا سکتی، یہ ایک سٹیٹمنٹ ہے، جس کی مجھے کم از کم اس کی سمجھ نہیں آئی۔
یہ تو تصویر کا ایک رخ ہوا، دوسرا رخ مزید دلچسپ ہے۔ عامر خان کی بیٹی کی تصاویر انٹر نیٹ پر کروڑوں لوگوں نے دیکھیں اور ان پر لاکھوں لوگوں نے تبصرے کیے۔ بہت سے ہندوستانیوں نے طعنے دیتے ہوئے لکھا کہ عامر خان کو چاہیے کہ اپنی بیٹی کو کپڑے پہنائے۔

اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہندوستانی مسلمان جائے تو جائے کہاں۔ اگر وہ مسکان خان کی طرح حجاب اوڑھے تو بی جے پی کے جنونی اسے حجاب اتارنے پر مجبور کرتے ہیں اور اگر وہ عامر خان کی بیٹی کی طرح بکینی پہنے تو اسے کہتے ہیں کہ کپڑے پہنو۔ اس پر کسی ستم ظریف نے تبصرہ کیا کہ کیا ہی اچھا ہو اگر بھارتی ہندو اپنے مسلمان ہم وطنوں کو خود ہی کپڑے خرید کر لے دیں تاکہ یہ جھگڑا تو ختم ہو۔

خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا، میرا مسئلہ ابھی وہیں ہے اور حل نہیں ہوا۔ میں عورتوں کی آزادی کا قائل ہوں اور اس حد تک بات سمجھ میں آتی ہے کہ عامر خان کی 25 سالہ بیٹی اپنا برا بھلا سمجھتی ہے، وہ جو چاہے پہن سکتی ہے مگر اس کے باپ کا اس حالت میں ساتھ کھڑا ہونا سمجھ میں نہیں آتا۔

ممکن ہے میرے یہ افکار بعض آزاد خیال فیمینسٹ دوستوں کو پسند نہ آئیں، پر میں کیا کروں، مجبور ہوں، مجھ سے عامر خان کی حرکت ہضم نہیں ہوئی۔ اگر آپ کو ہوئی ہے تو ضرور آگاہ کریں۔


نوٹ: یہ تحریر مصنف کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے جن سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ