بغیر ڈرائیور کے الیکڑک ٹرک کا پہلی بار عملی مظاہرہ

دیگر کمپنیاں بھی خود کار مال بردار ٹرکوں پر کام کر رہی ہیں تاہم وہ سب ڈیزل پر چلتی ہیں۔ آئن رائیڈ کا دعویٰ ہے کہ وہ مارکیٹ میں اس بڑی صنعت کی قیادت کر رہی ہے۔

سویڈن کی ٹیکنالوجی کمپنی آئن رائیڈ کے تیار کردہ خودکار الیکڑک ٹرک کا پہلی بار عملی مظاہرہ کیا گیا۔

اس ٹرک کو آئن رائیڈ پوڈ کا نام دیا گیا ہے اور مظاہرے کے دوران اس کے ریڈار، LiDARs، وژن سسٹم اور جی پی ایس کے کام کا جائزہ لیا گیا۔

کمپنی کے سی ای او رابرٹ فالک نے برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا: ’اس کی درستگی میں ایک ملی میٹر کا بھی فرق نہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم پوری گاڑی کو کتنی اچھی پوزیشن میں رکھ سکتے ہیں۔‘

آئن رائیڈ کمپنی، جس کی بنیاد 2016 میں رکھی گئی تھی، 2019 میں عام شاہراوں پر خود کار الیکٹرک مال بردار گاڑی چلانے والی دنیا کی پہلی کمپنی بن گئی۔

دیگر کمپنیاں بھی خود کار مال بردار ٹرکوں پر کام کر رہی ہیں تاہم وہ سب ڈیزل پر چلتی ہیں۔ آئن رائیڈ کا دعویٰ ہے کہ وہ مارکیٹ میں اس بڑی صنعت کی قیادت کر رہی ہے۔

آئن رائیڈ کی سی ایم او لائنیا فلیک نے کہا: ’اس کے الیکٹرک پارٹ بھی بہت اہم ہیں کیونکہ ایک خود کار گاڑی کو ڈیزل پلیٹ فارم پر چلانے کے بجائے الیکٹرک پلیٹ فارم پر چلانا بالکل الگ چیز ہے۔ اس لیے جب بات ان دونوں گیم چینجر ٹیکنالوجیز کی ہو تو ہم اس میں آگے ہیں۔‘

دنیا بھر کے فریٹ آپریٹرز کو ڈیلیوری کے وقت کو کم کرنے، اخراج کو کم کرنے اور ڈرائیوروں کی بڑھتی ہوئی کمی کا سامنا ہے۔

آئن رائیڈ پوڈ 26 ٹن وزن اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس میں ڈرائیور کیبن نہیں ہے۔ دوسری جانب ڈرائیور والے ڈیزل ٹرک کے مقابلے میں مال برداری کے آپریٹنگ اخراجات میں اس سے تقریباً 60 فیصد بچت ہو سکتی ہے۔

خود کار ٹرکنگ میں پیش رفت ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب امریکی صنعت پر نازک وقت چل رہا ہے جس کو 80 ہزار ٹرک ڈرائیوروں کی ریکارڈ کمی کا سامنا ہے۔ امریکہ میں آن لائن خریداری کی مانگ میں اضافے اور تیز تر ترسیل کے اوقات سپلائی چینز کے لیے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔

آئن رائیڈ نے گذشتہ سال نومبر میں امریکی مارکیٹ میں قدم رکھا تھا جب کہ رواں سال مارچ میں انہوں نے دنیا کے پہلے ریموٹ پوڈ آپریٹر کی خدمات حاصل کی تھی جس کا مظاہرہ امریکہ میں ٹرک چلانے کا وسیع تجربہ رکھنے والی ڈرائیور ٹفینی ہیتھکاٹ نے کیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی