فائز عیسٰی کے الزامات حقائق کے منافی: ثاقب نثار

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال چیئرمین جوڈیشل کمیشن اور ارکان کو لکھے خط میں قاضی فائز عیسٰی  نے ہائی کورٹ کے چیف جسٹسز میں سے سپریم کورٹ کا جج تعینات نہ کیے جانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

(تصویر: سپریم کورٹ آف پاکستان ویب سائٹ)

گذشتہ روز سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان کو لکھا گیا ایک خط سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں ججز تعیناتی کے طریقہ کار پر سوال اٹھائے تھے۔

پچیس 25 مئی 2022 کو لکھے گئے خط میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے سپریم کورٹ کے ججز کی تقرری کے معیار کو بہتر کرنے کی ضرورت پر بات کی ہے۔

لکھے گئے خط میں کیا ہے؟

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال چیئرمین جوڈیشل کمیشن اور ارکان کو لکھے خط میں قاضی فائز عیسٰی  نے ہائی کورٹ کے چیف جسٹسز میں سے سپریم کورٹ کا جج تعینات نہ کیے جانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ہائی کورٹ میں چیف جسٹسز اور سینیئر ججز کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کی طویل روایت کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس ثاقب گلزار کی جانب سے ’اپنی خود ساختہ منطق کا استعمال کرتے ہوئے، یک طرفہ طور پر امیدواروں کو نامزد کیا جس کے نتیجے میں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور سینئر ججز نظرانداز ہوئے‘ کہا ہے کہ ’بائی پاس کئے جانے والے ججز کو یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ ان سے جونیئر جج کو نامزد کیا جانا ہے۔‘

آئین کے آرٹیکل (دو) 206 کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے کہ ’اگر ہائی کورٹ کا کوئی جج سپریم کورٹ میں تقرری نہ چاہے تو پھر اسے ریٹائر ہوجانا چاہئے اس لئے یہ دعوی کرنا کہ ججز نے سپریم کورٹ میں تقرری سے انکار کردیا بدنیتی ( disingenuous) ہے۔‘

خط میں کہا گیا ہے کہ جونیئر ججز کو ان کی تیاری سے قبل ہی سپریم کورٹ کا جج تعینات کیا گیا جو ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر کام کرنے کے موقع سے محروم ہیں، اور اس کے نتیجے میں اس عہدے پر فائز رہنے سے حاصل ہونے والا بھرپور تجربہ حاصل نہیں کر پاتے۔ نتیجتاً، جب چیف جسٹس اور سینئر ججز کو نظرانداز کیا گیا تو عوام میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ وہ ججز اہل نہیں تھے جس نے ان کی اور ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔

عدلیہ کی جانب سے کئے گئے غلط فیصلوں کے اثرات سے متعلق جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے خط میں سابق چیف جسٹس نسیم حسن کا بھی حوالہ دیا اور کہا ہے کہ ’جسٹس نسیم حسن کا ٹیلی وژن پر غلطیوں کا اعتراف دیر آید درست آید کہا جا سکتا ہے۔ کیا جسٹس نسیم حسن کا اعتراف سابق وزیراعظم کی زندگی کو واپس لاسکتا ہے؟ جسٹس نسیم حسن کے احکامات پرسابق وزیراعظم کو موت کی سزا دی گئی۔‘

ثاقب نثار کیا کہتے ہیں؟

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے لگائے گئے الزامات مسترد کردیئے ہیں۔

انڈپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی خط میں کی گئی باتوں کو حقائق کے منافی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ’یہ حقائق درست نہیں۔‘

 انڈیپنڈنٹ اردو کی جانب سے ججز کے تعیناتی کی طریقہ کار سے متعلق پوچھے گئے سوال کی جواب میں انہوں نے کہا کہ ’جوڈیشل کمیشن نے یہ فیصلہ کرنا ہے۔‘

قانونی ماہرین کا کیا کہنا ہے؟

سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے انڈپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’قاضی فائز عیسٰی نے بہت سی باتیں درست لکھی ہیں۔ ماضی میں اعلی عدلیہ میں کی گئی تقرریاں معیار کے مطابق نہیں ہوئیں جس کا آئین تقاضا کرتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’انہوں نے جن نقائص کی طرف اشارہ کیا ہے وہ ٹھیک ہے کیونکہ جوڈیشل کمیشن کے ممبران اور بار کونسل کے تحفظات کو ملحوظ خاطر رکھا نہیں گیا اور شفافیت کو بھی یقینی نہیں بنایا گیا۔ چیف جسٹس خود نامزدگیاں کر دیتے ہیں جس میں ممبران کا عمل دخل نہیں ہوتا۔ یہ طریقہ کار آئین کے مطابق نہیں ہے۔‘

عرفان قادی کے مطابطق ’عدلیہ میں جج صاحبان کو آزاد اور غیر جانبدار ہونا چاہیے۔ میں کئی تجاویز سے اتفاق کرتا ہوں۔ میرے بھی جوڈیشل کمیشن کو لے کر کئی تحفظات ہیں، میں نے بھی اس پر اعتراضات اٹھائے تھے۔ بار کونسل کی جانب سے دی گئی تجویز کردہ ترامیم نہ کرنے پر میں نے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ ان تمام باتوں پر بحث ہونی چاہیے تاکہ پاکستان میں عدلیہ کو صحیح معنوں میں آزاد کہا جائے۔‘

پاکستان بار کونسل کے سابق صدر سید قلب حسن نے انڈپنڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ ’ماضی میں بھی پاکستان بار کونسل اور صوبوں کے ممبران جوڈیشل کمیشن ججز کی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں ترقی کے معیار سے متعلق کہتے رہے ہیں۔ تعیناتی کے دوران سنیارٹی، تجربہ اور آزادانہ طور پر فیصلہ کئے جانے کو مدنظر رکھنا چاہئیے۔‘

سابق جسٹس شبر رضا رضوی نے انڈپنڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ ’سینئیر ترین ججز کو صرف ان معقول وجوہات کی بنا پر نظر انداز کیا جانا چاہیے جو صحیح طریقے سے منظر عام پر آئیں۔‘

شبر رضا رضوی کا مزید کہنا تھا کہ ’سپریم کورٹ میں تقرریاں جیسے جسٹس منیب اختر اور جسٹس عائشہ ملک کی تقرری سنیارٹی کے عمل کو مدنظر رکھتے ہوئے نہیں کی گئیں۔‘

’نامزد دو چیف جسٹسز نے ماضی سے کچھ مختلف نہیں کیا جو پہلے نہ ہوا ہو۔ انہوں نے قاضی عیسٰی کے ’جوڈیشل کمیشن کے تمام ارکان کو نامزدگی کا حق دئیے جانے‘ کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ کہ ’جوڈیشل کمیشن کے تمام ارکان کو نامزدگی کا حق دیا جانا چاہیے۔ کمیٹی کے رولز میں جلد از جلد ترامیم کی جانی چاہیے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اعلیٰ عدلیہ میں غلط تقرریاں کوئی نئی کہانی نہیں۔ یہ تقرریوں کے سابقہ ​​نظام میں ہوتا رہا ہے اور 18 ویں ترمیم کے تحت موجودہ نظام میں بھی جاری ہے۔ مثال کے طور پر آئین کے آرٹیکل 193 کے تحت کسی وکیل کو براہ راست ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرر نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن خط کے مصنف کو بھی اسی طرح تعینات کیا گیا تھا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان