پنجاب: کابینہ کی تشکیل اور حکومت کو درپیش چیلنجز

پنجاب میں سیاسی اور آئینی بحران حل ہونے کے بعد حکومت کی حکمت عملی اور درپیش چیلنجز پر پر تجزیہ کاروں کا موقف ’کارکردگی پر فوکس کرنے کی ضرورت۔‘

وزیر اعلی پنجاب حمزہ شہباز کی زیر صدارت کابینہ کا اجلاس ہورہا ہے (تصویر: وزیر اعلی پنجاب سیکریٹریٹ)

پنجاب میں بالآخرحکومت کی تبدیلی کا مرحلہ کافی حد تک طے ہوگیا کیونکہ پیر کی رات نئے گورنر کی تعیناتی کے ساتھ ہی ابتدائی طور پر آٹھ رکنی صوبائی کابینہ نے بھی حلف اٹھا لیا ہے۔

گورنر ہاؤس لاہور میں صدر مملکت کی منظوری کے بعدچیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ امیر بھٹی نے نئے گورنر پنجاب بلیغ الرحمن سے حلف لیا بعد ازاں نومنتخب گورنر نے اسی موقع پر  کابینہ اراکین کا حلف لیا۔

حکومت کے مطابق ابتدائی طور پر 36رکنی کابینہ کی فہرست تیار کی گئی ہے جس میں پہلے آٹھ اراکین نے حلف اٹھایا اور ان میں پیپلز پارٹی کے بھی دو وزرا شامل ہیں۔ وزرا کو محکمے بھی سونپ دیے گئے ہیں۔

دوسری جانب تجزیہ کاروں کے خیال میں وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کے انتخاب میں بھی تاخیر ہوئی پھر حلف کئی روز بعد عدالتی حکم پر 30اپریل کو لیا گیا، ایک ماہ بعد کابینہ تشکیل پائی اور حکومت پوری طرح فعال ہوئی۔

اس حکومت کو اب بھی کئی چیلنجز درپیش ہیں پہلے تو سابقہ حکومت میں جو تنقید ہوتی رہی اس کا ازالہ کرنا ہوگا پھر معاشی حالات بھی بہتر کرنا ہونگے۔

مہنگائی اور مسائل میں گھرے پنجاب کے عوام حکومت سے غیر معمولی توقعات رکھتے ہیں اور آئندہ انتخابات میں بھی زیادہ وقت نہیں ہے لہذا فوری ریلیف کے اقدامات ناگزیر ہوں گے۔

کابینہ کی تشکیل اور محکموں کی تقسیم:

صدر مملکت عارف علوی کی جانب سے ڈیڑھ ماہ بعد نئے گورنر پنجاب کو تعینات کرنے کی منظوری ملی تو حکومت فوری حرکت میں آگئی رات گئے ہی گورنر کی حلف برداری تقریب ہوئی اور اس کے بعد کابینہ نے بھی حلف اٹھالیا۔

وفاق کی طرح پنجاب میں بھی اتحادیوں سے مل کرکابینہ تشکیل دی گئی ہے۔ حلف اٹھانے والوں میں چھ ن لیگ جبکہ دو پیپلز پارٹی کے وزرا شامل ہیں ۔

ترجمان مسلم لیگ ن پنجاب عظمیٰ بخاری کے بقول حکومت نے 36صوبائی وزرا کے ناموں کی فہرست پہلے ہی بنا رکھی ہے۔ پہلے مرحلہ میں آٹھ وزرا نے حلف اٹھایا اور انہیں محکمے دینے کا فیصلہ بھی کر لیاگیاہے۔

اویس لغاری کو وزارت بلدیات، وزارت قانون ملک احمد خان، وزارت داخلہ کاعطا اللہ تارڈ کو قلمدان سونپا جائے گا جب کہ پیپلز پارٹی کے حسن مرتضی کو وزارت زراعت، پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ علی حیدر گیلانی کو دی گئی ہے۔

عظمیٰ بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہاکہ صوبہ میں چالیس محکمے ہیں اسی طرح دوسرے اراکین کو بھی جلد وزارتیں سونپ دی جائیں گی۔ وزارت خزانہ اور اطلاعات ونشریات سمیت اہم وزارتیں بھی جلد سونپ دی جائی گی اور جو 20پی ٹی آئی کے منحرف اراکین ڈی سیٹ ہونے پرضمنی انتخاب میں کامیاب ہوں گے ان کے لیے بھی کچھ وزارتیں رکھی جارہی ہیں۔

انہوں نے کہاکہ صدر اور سابق گورنر کے غیر آئینی رویہ کی وجہ سے کابینہ کی تشکیل میں تاخیر ہوئی لیکن بالآخر یہ مرحلہ طے ہوگیا اب جو کام رکے ہوئے تھے وہ تیزی سے کرنے کی تیاری پہلے سے جاری تھی۔

کابینہ تشکیل اور چیلنجز:

پنجاب میں سیاسی اور آئینی بحران حل ہونے کے بعد حکومت کی حکمت عملی اور درپیش چیلنجز پر فوری قابو پانے کے دعووں پر تجزیہ کار کہتے ہیں حکومت کو اب کارکردگی پر فوکس کرنے کی ضرورت ہے۔

سابق نگران وزیر اعلیٰ پنجاب تجزیہ کار حسن عسکری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہاکہ جیسے تیسے حکومت تشکیل پاگئی لیکن اب حکومت کے لیے چیلنجز بھی اتنے زیادہ ہیں۔ ایک تو سابقہ حکومت پر بد انتظامی اور معاشی بحران پیدا کرنے کا جو الزام حکومتی جماعتیں لگاتی رہی ہیں اس میں بہتری کر کے خود کو منوانا پڑے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسرا یہ کہ لوگوں کے معاشی مسائل فوری حل کر کے ریلیف دینا پڑے گا کیونکہ دعوے جو کیے گئے تھے، اب لوگ ان کے وفا ہونے کے شدت سے منتظر ہیں۔

انہوں نے کہاکہ وزرا کو بھی معمول سے زیادہ محنت کرنا پڑے گی اور محدود وسائل میں زیادہ سے زیادہ مسائل حل کرنا کسی امتحان سے کم نہیں لیکن امید ہے موجودہ حکومت آئندہ انتخابات سے قبل پنجاب کے عوام کو ریلیف دے کر اپنی طرف مائل کرنے کی بھر پور کوشش کرے گی۔

ٹی وی اینکر تنزیلہ مظہر کے خیال میں موجودہ حکومت تجربہ کار ہے اور سابقہ حکومت کی نسبت انتظامی اور سیاسی طور پر اچھی شہرت رکھتی ہے۔

مثال کے طور پر حکمران جماعت کا گڑھ پنجاب کو سمجھا جاتا ہے اور یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ یہاں انتظامی افسران ان کے ساتھ کام کرنے میں زیادہ آسانی محسوس کرتے ہیں اور وہ بڑے فیصلے لینے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

تنزیلہ کے بقول پہلے نواز شریف پھر شہباز شریف اور شریف خاندان سے ہی حمزہ شہباز کو وزیر اعلیٰ بنایاگیاہے تو فطری طور پر ان کی بیوروکریسی اور محکموں پر گرپ مضبوط سمجھی جاتی ہے۔

اب کابینہ کی تشکیل کے بعد محکموں میں فوری کارکردگی پر کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ وقت پہلے ہی کافی ضائع ہوچکا اب زیادہ ٹائم نہیں ہے۔

انہوں نے کہاکہ موجودہ حکومت کو چاہیے کہ جو سابقہ حکومت کے جاری منصوبے ہیں وہ جاری رکھیں اور مزید ترقیاتی اقدامات فوری شروع کریں کیونکہ گزشتہ حکومت کے زیادہ منصوبے دکھائی نہیں دیتے بہرحال جو ہیں وہ عوام کی سہولت کے لیے مذید بہتر کیے جاسکتے ہیں۔

جنوبی پنجاب صوبہ کا چیلنج:

تنزیلہ مظہر نے کہاکہ موجودہ حکومت کو بھی سابقہ حکومتوں کی طرح جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کا چیلنج درپیش ہوگا لہذا اس معاملہ پر سیاست کو ایک طرف رکھتے ہوئے وہاں کے لوگوں کی سہولت کے مطابق جو بہتر ہو وہی فیصلہ جلد کیاجائے۔

انہوں نے کہاکہ سابقہ حکومت نے بھی علیحدہ صوبہ بنانے کا اعلان کر کے وہاں سیکرٹریٹ قائم کردیا جس سے مطلوبہ نتائج دکھائی نہیں دیے تو اس لیے اس حکومت کو چاہیے اگر انتظامی طور پر اس کا کوئی حل ہے تو ٹھیک ورنہ عوام کو واضح کر دیں اور اس حساس معاملہ پر سیاست نہ کریں۔

تنزیلہ کے بقول موجودہ حکومت پر ماضی میں الزام تھا کہ زیادہ فنڈز لاہور اور سینٹرل پنجاب پر خرچ کرتے ہیں جنوبی پنجاب میں محرومیاں ہیں مگر سابق وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہونے کے باعث یہ تاثر پایا جاتاتھا کہ شاید وہ جنوبی پنجاب پر زیادہ فنڈز خرچ کرتے ہیں جو حقیقت میں دکھائی نہیں دیتا۔

لہذا حکومت کو چاہیے کہ تمام علاقوں میں برابر فنڈز اور جہاں ضرورت ہو وہاں بلاتفریق منصوبے مکمل کرے، لیکن اس حکومت کو سب سے بڑا چیلنج اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا پنجاب میں شاید پہلی بار ہوگاکہ مسلم لیگ ن کو اقتدار میں پیپلز پارٹی ترین اور علیم خان گروپ کو بھی پاور شیئرنگ میں حصہ دینا ہوگا۔

اس صورتحال میں سب کی مشاورت سے پالیسیاں اور منصوبے مکمل کرنا تھوڑا مشکل ہوتا ہے لیکن وفاق کی صورتحال سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب یہ سیاسی جماعتیں حکومت میں آکر سنجیدگی اور بڑے پن کا مظاہرہ کریں گی اور لوگوں کی توقعات پر پورا اتریں گی ورنہ لوگوں کا اعتماد اٹھ سکتا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان