سپریم کورٹ حکومت کو تشدد سے روکے: تحریک انصاف کی درخواست

اسد عمر نے بدھ کی صبح سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں عدالت عالیہ سے استدعا کی کہ تحریک انصاف کے آئندہ احتجاج میں حکومت کو زبردستی اقدامات یا دھمکی آمیز حربے استعمال کرنے سے دور رہنے کا حکم دیا جائے۔ 

عمران خان کے ایک حامی 26 مئی 2022 کو اسلام آباد میں مظاہرے کے دوران (فائل تصویر: اے ایف پی)

پاکستان تحریک انصاف نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے وفاقی حکومت کو پارٹی کے اسلام آباد میں متوقع ’پرامن احتجاج‘ میں حصہ لینے والے پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف تشدد اور یا رکاوٹیں پیدا نہ کرنے کی ہدایت کرنے کی استدعا کی ہے۔ 

پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل اسد عمر نے بدھ کی صبح سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں عدالت عالیہ سے مزید استدعا کی کہ تحریک انصاف کے آئندہ احتجاج میں حکومت کو زبردستی اقدامات یا دھمکی آمیز حربے استعمال کرنے سے بھی دور رہنے کا حکم دیا جائے۔ 

پاکستان تحریک انصاف کی درخواست میں گذشتہ دو مہینوں کے دوران ملک میں سیاسی صورت حال کا تفصیل سے ذکر کیا گیا، جن کی ابتدا سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے پیش ہونے سے ہوئی تھی۔   

درخواست میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں پیش ہونے والی تحریک عدم اعتماد کا ذکر کیا گیا، جس کی وجہ سے انہیں وزیر اعظم کے عہدے سے ’غیر قانونی‘ طریقے سے ہٹایا گیا۔ 

درخواست میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے حمزہ شہباز کے بطور وزیراعلی پنجاب انتخاب کو بھیی غیر قانونی بھی قرار دیا گیا ہے۔

پی ٹی آئی کی درخواست میں مزید بیان کیا گیا کہ اس صورت حال میں جماعت نے ملک بھر میں پرامن احتجاج کرتے ہوئے جلسوں کا انعقاد کیا تاکہ عوام کو عمران خان حکومت کے ’غیر قانونی طور پر منظم طریقے سے‘ ہٹائے جانے سے متعلق متحرک کیا جا سکے۔

درخواست میں تحریک انصاف کے 25 مئی کو اسلام آباد میں ’حقیقی آزادی مارچ‘ کا احوال بھی تفصیل سےبیان کیا گیا ہے۔ 

یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف اس سال مارچ میں تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تھی، جو سپریم کورٹ کے حکم کے بعد نو اپریل کو ووٹنگ کے بعد منظور ہوئی تھی۔

تحریک انصاف نے 25 مئی کو ’حقیقی آزادی مارچ‘ کا اہتمام کیا تھا، جسے روکنے کی خاطر وفاقی حکومت نے ہر ممکن کوشش کی تھی۔

اسلام آباد کے علاوہ صوبہ پنجاب کے کئی شہروں میں پی ٹی آئی کے کارکنوں پر آنسو گیس اور لاٹھی چارج کیا گیا، جب کہ وفاقی دارالحکومت کے تمام راستے کنٹینرز کی مدد سے بند کر دیے گئے تھے۔ 

تاہم عمران خان اور پی ٹی آئی کے کارکنان کسی نہ کسی طرح اسلام آباد کے ریڈ زون میں واقع ڈی چوک پہنچ گئے تھے، جہاں فوج کو بھی طلب کیا گیا۔ 

عمران خان نے وفاقی حکومت سے انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا مطالبہ کرتے ہوئے اور دوسری مارچ کی کال کی دھمکی دیتے ہوئے 26 مئی کو ’حقیقی آزادی مارچ‘ ختم کر دیا تھا۔ 

درخواست میں پی ٹی آئی نے استدلال پیش کیا کہ ’پرامن طریقے سے نقل و حرکت، جمع ہونے، تنظیم سازی، اظہار رائے کا حق آئین کے آرٹیکل 15، 16، 17 اور 19 میں درج ہے۔‘

درخواست گزار نے مزید کہا کہ احتجاج کا حق دستور پاکستان میں موجود حقوق میں شامل ہے اور پاکستان کا ہر شہری اور سیاسی جماعت بشمول پی ٹی آئی کے کارکنوں، اراکین، قائدین اور حامیوں کو پرامن طریقے سے اجتماع اور احتجاج کرنے کا حق حاصل ہے۔ 

پی ٹی آئی نے موقف اختیار کیا کہ وفاقی حکومت نے ان بنیادی حقوق کے اس دستوری مینڈیٹ کے برعکس 25 مئی کے مارچ کے دوران مظاہرین پر آنسو گیس اور لاٹھی چاج کے ذریعے تشدد کے علاوہ انہیں گرفتار بھی کیا۔ 

درخواست میں مزید کہا گیا: ’25 مئی کو حکومت پنجاب کی ضلعی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ساتھ وفاقی وزارت داخلہ کی ’بربریت‘ کی وجہ سے لوگوں کو اسلام آباد کی طرف جانے یا پہنچنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ اسلام آباد تک رسائی کے راستے مکمل طور پر بند کر دیے گئے تھے۔‘

درخواست میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کے گھروں پر پولیس چھاپوں اور گرفتاریوں کا ذکر بھی کیا گیا۔ 

درخواست گزار اسد عمر نے کہا کہ ’ریاستی طاقت کے اس غیر قانونی اور بدتمیزانہ استعمال کے باعث ان کے زیادہ تر کارکن اور حامی اسلام آباد نہیں پہنچ سکے۔‘

انہوں نے کہا کہ شہریوں کو ہراساں کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے جا رہے ہیں اور اس میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں، کارکنوں اور حامیوں کے خلاف جعلی  ایف آئی آرز کا اندراج بھی شامل ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کے حربوں کا مقصد عوام کی مرضی و منشا کو ناکام بنانا ہے اور یہ حکومتی اقدامات غیر قانونی، غیر آئینی، امتیازی، قانون کے مناسب عمل کی خلاف ورزی اور آئین میں درج بنیادی حقوق کے خلاف ہیں۔

پی ٹی آئی کی درخواست میں کہا گیا کہ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناللہ نے ان کے دوسرے احتجاج کی کال پر کہا تھا کہ وہ اس کی اجازت نہیں دیں گے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کا بیان حکومت کی طرف سے ارادے کا واضح اعلان ہے، جو آئین میں درج بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

’اسی طرح کے بیانات وفاقی اور پنجاب حکومت کے دیگر عہدیداروں کی طرف سے دیے گئے ہیں، اور ان تمام حربوں کا مقصد عوام میں خوف پیدا کرنا ہے تا کہ کوئی بھی درخواست گزار کے احتجاج میں شرکت کی ہمت نہ کر سکے۔‘

درخواست میں کہا گیا کہ اگر وفاقی اور پنجاب حکومتیں اپنے ’غیر قانونی ہتھکنڈوں‘ میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو یہ آئین کی روح اور آئین کی خلاف ورزی ہو گی اور یہ سب کچھ پاکستان میں جمہوریت پر عوام کے اعتماد کو متاثر کرے گا۔

درخواست میں اس بات پر زور دیا کہ پاکستان میں عدالت بنیادی حقوق کی محافظ ہے، اور آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اپنے اختیارات کے استعمال میں اسے نافذ کرنا اس کا فرض ہے۔

’اس طرح، درخواست میں اٹھائے گئے نکات آئین کے آرٹیکل 184(3) کے دائرہ کار میں آتے ہیں، جس کے لیے اس معزز عدالت سے فیصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔‘

پاکستان تحریک انصاف نے آئین کی مختلف شقوں کا خاکہ پیش کیا جو پرامن احتجاج اور آزادی اظہار کے حق کی ضمانت دیتے ہیں اور عدالت سے درخواست کی کہ وہ وفاقی حکومت، پنجاب حکومت اور دیگر جماعتوں کو ہدایت کرے کہ تشدد یا گرفتاری یا کسی طاقت یا زبردستی کے اقدامات کا استعمال نہ کریں، یا دھمکی آمیز ہتھکنڈے (بشمول، بغیر کسی حد کے، ان کے گھروں پر غیر قانونی چھاپے مارنا)، پاکستان کے شہریوں اور ان کے حامیوں، کارکنوں، اراکین اور عوام کے رہنماؤں کے خلاف جو درخواست گزار کے اعلان کردہ کسی بھی احتجاج یا اسمبلی کو پرامن طریقے سے منعقد کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے عدالت سے مزید استدعا کی کہ وہ حکام کو ہدایت دے کہ کسی بھی طرح کی رکاوٹ پیدا نہ کریں جس میں کسی بھی جگہ یا شہر تک یا کسی بھی طریقے سے رسائی کو روکنا (کنٹینرز وغیرہ لگا کر) یا لوگوں کی نقل و حرکت کو محدود کرنا شامل ہے۔

مزید برآں، حکام کو ہدایت کی جانی چاہیے کہ تشدد، بشمول طاقت یا کسی بھی ہتھکنڈے کا استعمال نہ کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان