ایران نے طے یورینیم کے افزودہ ذخیرے کی حد پار کر لی

تہران کی یورپی ملکوں کی جانب سے نئے ایٹمی معاہدے کی پیش کش نہ کیے جانے کی صورت میں 7 جولائی کو یورینیم کو ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کی صلاحیت کی حد تک افزودہ کرنے کی دھمکی۔

2018 میں لی گئی اس فائل تصویر میں ایرانی صدر حسن روحانی  ایک اٰٹمی پلانٹ کے دورے پر۔ پیر کو ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے اعلان کیا کہ یران نے یورینیم کے افزودہ ذخیرے کی وہ حد پار کر لی ہے جو 2015 میں عالمی طاقتوں کے ساتھ اس کے جوہری معاہدے کے تحت طے کی گئی تھی (اے پی)

ایرانی حکومت اور بین الاقوامی انسپکٹروں نے کہا ہے کہ ایران نے یورینیم کے افزودہ ذخیرے کی وہ حد  پار کر لی ہے جو 2015 میں عالمی طاقتوں کے ساتھ اس کے جوہری معاہدے کے تحت طے کی گئی تھی۔

خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق ایک سال قبل امریکہ کے ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے سے یک طرفہ اخراج کے بعد ایران نے پہلی بار معاہدے کی بڑی خلاف ورزی کی ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف  کی جانب سے پیر کو یورینیم کے افزودہ ذخائر کی حد پار کرنے کے اعلان سامنے آیا۔ جلد ہی ایٹمی معاملات کے نگران اقوام متحدہ کے ادارے کی جانب سے بھی اس کی تصدیق  کر دی گئی، جس کے بعد  ایٹمی معاہدے کو بچانے کے لیے یورپی ملکوں پر نیا دباؤ آ گیا ہے۔ دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ایران کو زیادہ سے زیادہ ہدف بنانے کی مہم بھی جاری ہے۔

ایران نے علیحدہ  سےدھمکی بھی دی  ہے کہ یورپی ملکوں کی جانب سے نئے ایٹمی معاہدے کی پیش کش نہ کیے جانے کی صورت میں وہ 7 جولائی کو یورینیم کو اس قدر افزودہ کرنا شروع کر دے جس سے ایٹمی ہتھیار تیار کئے جا سکتے ہیں۔

اس اعلان کے بعد وسیع تر مشرق وسطیٰ میں کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ یہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب پہلے سے ہی ایران کی جانب سے امریکی ڈرون گرانے، ایرانی حمائت یافتہ حوثیوں کے ہتھیار بردار ڈرون سے سعودی عرب پر حملوں اور آبنائے ہرمز میں آئل ٹینکروں پر پراسرار حملےسے خطے کے حالات کشیدہ ہیں۔

گذشتہ ماہ آئل ٹینکروں پر ہونے والے حملے کا الزام امریکہ اور اسرائیل نے ایران پر لگایا ہے، جبکہ  حوثیوں نے پیر کو سعودی عرب کے ابہا کے ہوائی اڈے پر نئے حملے کا بھی دعویٰ کیا جس میں سعودی حکومت کے مطابق نو افراد زخمی ہوئے۔

ایران آگ سے کھیل رہا ہے: صدر ٹرمپ

یورپی یونین نے ایران پر زور دیا ہے کہ وہ یورینیم افزودہ نہ کرے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے ایرانی اقدام کو ’ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کی جانب اہم قدم قرار دیا ہے۔‘ یورپی خدشات کے باوجود ایران کا طویل عرصے سے اصرار ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔

وائیٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رپورٹروں کو بتایا کہ ایران ’آگ سے کھیل رہا ہے۔‘ جبکہ  امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ ایران کی یورینیم کی ہرطرح کی افزودگی بند کروائے۔ حتیٰ کہ اس سطح کی افزودگی بھی نہ کی جائے جس کی ایٹمی معاہدے میں اجازت دی گئی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 

مائیک پومپیو نے ایک بیان میں کہا کہ ’ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ایرانی حکومت خطے اور دنیا کے لیے زیادہ خطرناک ہوگی۔‘

اگرچہ آبنائے ہرمز میں ایران کی جانب سے امریکی ڈرون مار گرانے کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر حملے کا حکم دے کرواپس لے لیا تھا، امریکی حکومت نے طیارہ بردار جہاز، ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے بی 52 بمبار طیارے اور مزید فوج علاقے میں بھیج دی ہے۔

اس صورت حال سے یہ خوف بڑھ گیا ہے کہ کوئی غلط اندازہ یا اور کوئی واقعہ امریکہ اور ایران کے درمیان جنگ کا سبب بن سکتا ہے۔ 

ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے رپورٹروں سے بات چیت میں اعتراف کیا کہ ایران نے ایٹمی معاہدے کے تحت طے کی گئی یورینیم کی افزودگی کی حد پار کر دی ہے۔ ان کا کہنا تھا: ’ہم نے پہلے ہی اس کا اعلان کر دیا تھا اور شفاف انداز میں کہہ دیا تھا کہ ہم ایسا کرنے جا رہے ہیں۔ ہم وہی کرنے جا رہے ہیں جس کا ہم اعلان کر چکے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنا ہمارا حق ہے جو ایٹمی معاہدے نے ہمیں دیا‘۔

اقوام متحدہ کے ایٹمی توانائی کے ادارے انٹرنیشنل اٹومک انرجی ایگنسی نے کہا ہے کہ اس کے انسپکٹر جنرل نے حکام کو بتایا ہے کہ ایران کی جانب سے یورینیم کی افزودگی کی حد توڑنے کی تصدیق کرلی گئی ہے۔

ایٹمی معاہدے کی شرائط کے تحت ایران نے یورینیم کے ذخائر تین سو کلو گرام سے کم رکھنے پر اتفاق کیا تھا۔ اسی طرح یورنیم کو زیادہ سے زیادہ 3.67 فیصد تک افزودہ کیا جا سکتا ہے۔

اس سے پہلے ایران نے یورینیم کو 20 فیصد تک افزودہ کیا جس کا مطلب یہ ہے تکنیکی اعتبار سے یہ یورنیم ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کے قابل معیار سے کچھ ہی کم معیار کی تھی۔ ایران کے پاس اعلیٰ درجے کی افزودہ یورینیم کی مقدار 10 ہزار کلوگرام تک تھی۔

ایرانی وزیر خارجہ یا اقوام متحدہ کے ایٹمی توانائی کے ادارے میں سے کسی نے یہ نہیں بتایا ہے کہ اس وقت ایران کے پاس کتنی یورینیم ہے۔ گذشتہ ہفتے ویانا میں ایک ایرانی عہدیدار نے کہا تھا کہ ایران کی یورنیم کی مقدار ایٹمی معاہدے کی حد سے 2.8 کلوگرام کم ہے۔

ایران نے کم معیار کی افزودہ یورینیم کی پیدوار میں چار گنا اضافہ کر دیا ہے۔ 3.67 فیصد تک افزودہ یہ یورنیم بجلی پیدا کرنے کے لیے ایٹمی ری ایکٹر چلانے کے لیے کافی ہے۔ اس یورینیم سے ایٹمی ہتھیار نہیں بنائے جا سکتے۔

ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کا کہنا ہے کہ ایران کم افزودہ یوینیم کو خام یورینیم میں ملا کر اسے افزودگی کی مقررہ حد میں رکھ سکتا تھا۔ حد توڑنے کا مطلب یورپی ممالک کو نوٹس دینا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یورپی ممالک کے اقدامات کافی نہیں ہیں اس لیے ایران اپنے منصوبوں کے ساتھ آگے بڑھے گا جیسے کہ پہلے بھی اعلان کیا جا چکا ہے۔

جواد ظریف نے کہا کہ افزودہ یورینیم اور بھاری پانی کے ذخائر میں اضافے کے معاملے میں ایران اپنے اقدامات کے پہلے مرحلے پر عمل کر رہا ہے۔

ماہرین کے مطابق ایران کی جانب سے یورینیم کی مقدار کی حد توڑنے سے ایک سال کی اس مدت میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں ہوگی جو ایٹم بم کی تیاری کے لیے مطلوبہ مواد اکٹھا کرنے کے لیے ضروری ہے تاہم اس کے لیے شرط یہ ہے کہ ایران یورینیم کی مقدار میں اضافہ جاری رکھے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کی جانب سے یورینیم کے ذخائرمیں اضافہ اور اعلیٰ درجے کی افزودگی ایک ساتھ کرنے سے ایک سال کی کھڑکی بند کرنے کا عمل شروع ہو جائے گا اور ایٹمی معاہدہ بچانے کی سفارتی کوششوں کے راستے میں رکاوٹ آئے گی۔

2015 میں ایٹمی معاہدے پر ایران، امریکہ، چین، روس، جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے اتفاق کیا تھا۔ اس موقعے پر ماہرین کا خیال تھا کہ ایران چند ہفتوں سے لے کر تین ماہ میں ایٹم بم تیار کر سکتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا