یورپی یونین نے روس کو عالمی خوراک کے بحران کا ذمہ دار ٹھہرا دیا

چارلس مشیل نے روسی افواج پر یہ بھی الزام لگایا کہ وہ اپنے زیرقبضہ علاقوں سے اناج چوری کر رہی ہیں اور اس کا الزام دوسروں پر لگا رہی ہیں۔

یورپی کونسل کے صدر چارلس مشیل 31 مئی 2022 کو برسلز میں یوکرین، دفاع اور توانائی سے متعلق یورپی یونین کے سربراہی اجلاس کے اختتام پر ایک پریس کانفرنس کے بعد روانہ ہو رہے ہیں۔ (اے ایف پی)

یورپی کونسل کے صدر چارلس مشیل نے روس پر خوراک کی فراہمی کو ’ترقی پذیر ممالک کے خلاف سٹیلتھ میزائل‘ کے طور پر استعمال کرنے کا الزام لگایا اور عالمی سطح پر خوراک کے بحران کے لیے ماسکو کو مورد الزام ٹھہرایا ہے جس کے بعد ماسکو کے اقوام متحدہ کے سفیر سلامتی کونسل کا اجلاس چھوڑ کر چلے گئے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق صدر چارلس مشیل نے کونسل کے اجلاس میں روسی سفیر واسیلی نیبینزیا سے براہ راست مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ انہوں نے چند ہفتے قبل کنٹینروں اور جہازوں میں لاکھوں ٹن اناج اور گندم  یوکرین کی اودیسا بندرگاہ میں پھنسے ہوئے دیکھے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ’بحیرہ اسود میں روسی جنگی جہازوں‘ اور ٹرانسپورٹ کے بنیادی ڈھانچے اور اناج ذخیرہ کرنے کی جگہوں پر ماسکو کے حملوں اور اس کے ٹینکوں، بموں اور بارودی سرنگوں کی وجہ سے فصل کی بوائی اور کٹائی نہیں ہو رہی۔

مشیل نے کہا کہ اس سے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے، لوگ غریب ہو رہے ہیں اور تمام علاقے غیر مستحکم ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’خوراک کے اس بحران کا ذمہ دار روس ہی ہے۔ صرف روس۔‘

چارلس مشیل نے روسی افواج پر یہ بھی الزام لگایا کہ وہ اپنے زیرقبضہ علاقوں سے اناج چوری کر رہی ہیں اور اس کا الزام دوسروں پر لگا رہی ہیں اور یہ ’بزدلانہ‘ اور ’خالص پروپیگنڈا‘ کا عمل ہے۔

روسی سفیر واسیلی نیبینزیا مشیل کی بریفنگ کے دوران باہر چلے گئے اور روس کی نشست ایک اور سفارت کار کو دے دی۔

روس کے اقوام متحدہ کے نائب سفیر دیمیتری پولیانسکی نے بعد میں ٹیلی گرام کے روسی چینل پر ٹویٹ کیا کہ مشیل کے تبصرے اتنے ’بدتمیزانہ‘ تھے کہ روسی سفیر سلامتی کونسل کے چیمبر سے نکل گئے۔

سلامتی کونسل کے اجلاس میں یوکرین جنگ کے دوران جنسی تشدد پر توجہ مرکوز کی جانی تھی لیکن روسی حملے اور اس کے نتائج خصوصاً عالمی سطح پر خوراک کی قلت اور بڑھتی ہوئی قیمتوں پر بھی آواز اٹھائی گئی۔

مشیل نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیریش کی جانب سے پیکیج معاہدہ حاصل کرنے کی کوششوں کی بھرپور حمایت کی جس سے یوکرین سے اناج کی برآمدات کی اجازت ہوگی اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ روسی خوراک اور کھاد کی عالمی منڈیوں تک غیر محدود رسائی ہو۔

یوکرین اور روس مل کر دنیا کی تقریباً ایک تہائی گندم اور جو اور نصف فیصد سورج مکھی کا تیل پیدا کرتے ہیں جبکہ روس اور اس کا اتحادی بیلاروس کھاد کا اہم جزو پوٹاشیم پیدا کرنے میں دنیا کے دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔

انتونیو گویتریش نے گذشتہ ماہ خبردار کیا تھا کہ دنیا میں بھوک ’ایک نئی بلند ترین سطح پر ہے‘، صرف دو سالوں میں شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا کرنے والے افراد کی تعداد کرونا وبا سے پہلے 13کروڑ 50 لاکھ سے دوگنا بڑھ کر آج 27 کروڑ 660 لاکھ ہوگئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ پانچ لاکھ سے زائد افراد قحط میں زندگی گزار رہے ہیں اور ان کی تعداد میں 2016 سے اب تک 500 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

یوکرین کے اقوام متحدہ کے سفیر سرگیے کیسلیتسیا نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ ان کا ملک عالمی غذائی بحران کی روک تھام کے لیے حل تلاش کرنے کے لیے پرعزم ہے اور اودیسا کی اہم جنوبی بندرگاہ سے برآمدات دوبارہ شروع کرنے کے لیے ’ضروری حالات‘ بنانے کے لیے تیار ہے۔

انہوں نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ اس بات کو کیسے یقینی بنایا جائے کہ روس شہر پر حملہ کرنے کے لیے تجارتی راستے کا غلط استعمال نہ کرے۔

سرگیے کیسلیتسیا نے کہا کہ اتوار کو یوکرین کے دارالحکومت کیئف میں چار روسی میزائل ایک پلانٹ سے ٹکرائے جہاں یوکرینی بندرگاہوں پر اناج لے جانے والی مال بردار کاروں کی مرمت کی جارہی تھی۔ اس حملے کے بعد سے یہ سوال زیادہ متعلقہ ہو گیا ہے۔

یوکرینی سفیر نے کہا:  ’اس کا مطلب یہ ہے کہ یوکرینی گندم کی برآمد کو آسان بنانے کے لیے ولادی میر پوتن کی تمام کہانیاں جو وہ اپنے مکالموں میں بتاتے ہیں وہ حقیقت سے بہت دور ہیں۔‘

بہرحال، انہوں نے کہا کہ ’ہم یوکرینی زرعی مصنوعات کے ماہر کے لیے بحری قوانین کے کام کو یقینی بنانے کی خاطر اقوام متحدہ اور شراکت داروں کے ساتھ اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ پہلے قدم کے طور پر روس کو یوکرین کے ارد گرد سمندری پانیوں میں اپنی بحری افواج کو واپس بلانا ہوگا اور بندرگاہوں اور تجارتی جہازوں پر حملوں کے خلاف حفاظتی ضمانتیں فراہم کرنی ہوں گی۔

روس کی یوکرینی اناج چوری کرنے کی خبریں ’قابل اعتماد‘ ہیں: بلنکن

دوسری جانب فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے اس تنازعے سے پیدا ہونے والے غذائی تحفظ کے امور پر نجی شعبے کے گروپوں کے ساتھ ورچوئل گفتگو میں روسی فورسز پر قبضہ شدہ کھیتوں میں دھماکہ خیز مواد نصب کرنے اور یوکرین کی خوراک کی برآمدات ذخیرہ  کرنے کا الزام لگایا۔

امریکی وزیر خارجہ نے ان خبروں کی حمایت کی کہ روس نے دوبارہ فروخت کرنے کے لیے یوکرین سے اناج چوری کیا ہے، اور یہ کہ ماسکو یوکرین کو مکئی برآمد کرنے سے روک رہا ہے۔

گندم اور دیگر اناج کی عالمی قیمتوں میں تیزی سے اضافے اور منڈلاتی قلت کی وجوہات بیان کرتے ہوئے اینٹنی بلنکن نے مزید کہا کہ ’اب روس اپنی برآمدی اشیائے خوردونوش بھی ذخیرہ کر رہا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ جنگ ’عالمی غذائی تحفظ پر تباہ کن اثرات مرتب کر رہی ہے کیونکہ یوکرین دنیا کو گندم فراہم کرنے والے بڑے ممالک میں سے ایک ہے۔‘

اے ایف پی کے مطابق نیویارک ٹائمز نے پیر کو خبر دی ہے کہ متعدد مال بردار بحری جہاز روس کے زیر انتظام بندرگاہوں سے روانہ ہو چکے ہیں جنہیں امریکی حکام نے ’چوری شدہ یوکرینی اناج‘ قرار دیا ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ نے 14 ممالک، جن میں زیادہ تر افریقی ہیں، کو ان ترسیلات کے بارے میں آگاہ کر دیا ہے، کیونکہ ان میں سے بہت ساروں کا انحصار اناج کی درآمد پر ہے اور ان کی رسد پہلے ہی شدید محدود ہے۔

بلنکن نے کہا کہ روسی بحریہ نے دنیا کو ’بلیک میل‘ کرنے کی کوشش میں اناج بردار جہازوں کو بحیرہ اسود کی بندرگاہ اودیسا چھوڑنے سے روک دیا ہے۔

انہوں نے کہا: ’اس وقت بحیرہ اسود میں روسی بحری ناکہ بندی یوکرین کی فصلوں کو دیگر ممالک میں بھیجنے سے روک رہی ہے۔‘

’اودیسا کے قریب تقریباً دو کروڑ ٹن گندم سائلو میں پھنسی ہوئی ہے۔ اناج سے تقریباً بھرے ہوئے جہاز روسی ناکہ بندی کی وجہ سے اودیسا بندرگاہ میں پھنسے ہوئے ہیں۔‘

بلنکن نے کہا کہ روسی صدر ولادی میر پوتن کی یہ سوچی سمجھی حکمت عملی ہے کہ وہ باقی دنیا کو ’اپنے سامنے ہار ماننے‘ پر مجبور کریں اور روس پر عائد پابندیوں کو ختم کریں۔ 

 بلنکن نے کہا: ’دوسرے لفظوں میں، بالکل سادہ الفاظ میں، یہ بلیک میلنگ ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ