توہینِ مذہب: بی جے پی کی بلی تھیلے سے باہر آ گئی

بی جے پی کے رہنماؤں کے بیان پر مسلم دنیا سے جو شدید ردِ عمل آیا اس کی ہندوتوا کے کارکنوں کو بالکل توقع نہیں تھی۔

بھارتی حکمراں پارٹی کی ترجمان نوپور شرما کے پیغمبر اسلام کے حوالے سے بیانات پر سات جون 2022 کو کراچی میں ایک مظاہرہ (اے ایف پی)

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے 

 

ہندوستانی آئین کو پس پردہ رکھ کر 14 فیصد مسلم اقلیت پر دھونس دباؤ کی جو پالیسی پچھلے چند برسوں سے قائم کر دی گئی ہے، اس کے بعد ہندوتوا کے کارکن سمجھتے تھے کہ ان کی حکومت اندرون ملک کے حالات پر کسی دوسرے ملک کو مداخلت کی اجازت نہیں دے گی۔

دوسری خوش فہمی یہ تھی کہ چونکہ مسلم ممالک منقسم، انتشار، تجارتی لین دین اور غفلت کی نیند میں مشغول پڑے ہیں، لہٰذا وہ ہندوستان کو مسلم مخالف پالیسیوں کا کبھی نوٹس نہیں لیں گے۔

عرب میڈیا کی رپورٹنگ سے ہندوستان میں اقلیت مخالف پالیسی اور انسانی حقوق کو پامال کرنے کے واقعات کا پتہ تو چل جاتا تھا مگر عرب حکمرانوں نے اپنے عوام میں پائے جانے والے خدشات کو کبھی محسوس کرنے کی سعی نہیں کی۔

لیکن اب جب بات پیغمبر اسلام پر آئی تو اس نے عوام اور حکمرانوں دونوں کو جھنجھوڑ دیا، جس کا شدید ردعمل ہم نے مسلم ممالک میں سفارت کاری سے لے کر بھارتی اشیا کے بائیکاٹ کے نعروں کی شکل میں دیکھا۔

ہندوستان میں دو سال قبل شہریت کا ترمیمی بل لایا گیا۔ مسلمانوں نے خصوصاً شاہین باغ کی عورتوں نے اس کے خلاف بھرپور احتجاج کیا جس کو عدالت کا سہارا لے کر ختم کروایا گیا۔ مسلم دنیا خاموش رہی۔

بابری مسجد کو منہدم کرنے کے 30 برس بعد اب تقریباً پانچ ہزار مساجد کی فہرست تیار کی گئی ہے، جن میں گیا نوا پی مسجد کا قضیہ حال ہی میں اٹھایا گیا۔ کبھی عدالتوں سے تو کبھی محکمہ آثار قدیمہ کی مدد سے مساجد کو مندر میں تبدیل کرنے کی مہم تیز کی جا رہی ہے۔ کسی ملک نے، حتی کہ بغل میں بنگلہ دیش یا پاکستان نے بھی اس پر بات نہیں کی۔

اب تو تاج محل اور قطب مینار کو بھی متنازع بنا دیا گیا ہے۔ کرناٹک کی مسلم طالبات کو امتحان میں حجاب پہن کر بیٹھنے کی اجازت نہیں دی گئی مگر راجستھان کی ہندو عورتوں کے گھونگھٹ ہٹانے پر کبھی بات نہیں کی جاتی، بلکہ اسے سیاحت کا تماشا بنا کر ساری دنیا میں فروغ دیا جا رہا ہے۔ اس دہرے معیار پر مسلم امہ نے بات کرنے کی کبھی جرات نہیں کی۔

رمضان کے مہینے میں مسجدوں کے سامنے بیٹھ کر اذان کے وقت ہنومان چالیسا پڑھنے سے مسلمانوں کو کس طرح کی اذیت سے گزرنا پڑا، کسی نے ان سے پوچھنا تک گوارا نہیں کیا۔

ہندوستان میں صدیوں سے مختلف مذاہب اور نسلوں کے مابین شادی و بیاہ ہوتے رہے ہیں مگر مسلمانوں پر ’لو جہاد‘ کا الزام لگا کر ان پر ہندووں کو ورغلانے کے کیس دائر کر دیے گئے جن میں آج بھی کیرلا اور دوسری ریاستوں کے کئی مسلمان جیلوں میں بند پڑے ہیں۔ ہندوستان کے مسلم علما بھی خاموش رہے۔

مسلم اکثریتی آبادی والی ریاست جموں و کشمیر میں اندرونی خودمختاری ختم کر کے آبادی کا تناسب کم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا اور اس خطے کو ایک حراستی مرکز میں تبدیل کرنے پر کسی نے اف تک نہیں کی اور نہ بات کرنے کی اجازت دی گئی۔ بیشتر ہندوؤں نے مختلف مقامات پر بینڈ باجا بجا کر خوشی کا اظہار کیا، مگر مسلم دنیا تماشا دیکھتی رہی۔

انہی واقعات کے پیش نظر عالمی جینوسائیڈ واچ کے سربراہ گریگری سٹینٹن نے کہا تھا کہ ہندوستان میں نسل کشی کے آثار نظر آ رہے ہیں جس کو آج تک عالمی اداروں، جمہوری ملکوں اور مسلم دنیا نے سنجیدگی سے نہیں لیا۔

جب ہندوستان کے بیشتر ہندوؤں اور مسلمانوں نے کہا کہ ملک میں ہندوتوا پالیسیاں اس ملک کے سیکیولر امیج کو مسخ کر رہی ہیں، مگر منصوبہ چونکہ ہندو راشٹر بنانا تھا، اس لیے کسی کی سنے بغیر پارٹی کے ترجمانوں سے اچانک ایسا فعل سرزد ہو گیا کہ اب ایک ہفتے کی منت سماجت کے بعد بھی مسلم دنیا کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں سنبھلتے۔

بی جے پی کی پارٹی کی ترجمان اور ایک اور عہدےدار نے ٹی وی مباحثے میں توہین مذہب کی وہ حدیں پار کر دیں جس سے پوری امت سکتے میں آ گئی۔ بقول ایک تجزیہ نگار ’یہ تو سلمان رشدی والے معاملے کا پنر جنم (یعنی دوسرا جنم) ہوا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہم نے دیکھا کہ مسلم دنیا میں کہرام مچ گیا جہاں موجود ایک کروڑ سے زاید بھارتیوں کا روزگار خطرے میں پڑ گیا، متحدہ عرب امارات کے ساتھ 73 ارب ڈالر کی تجارت مشکلات کا شکار ہو گئی اور خلیجی تعاون کونسل کے چھ ممالک سے بھارت کو حاصل 35 ارب ڈالر زرمبادلہ سوالیہ نشان بن گیا۔

بھارتی حکومت نے اس ممکنہ نقصان کے پیش نظر نہ صرف پارٹی ترجمانوں کو ہٹا دیا ہے بلکہ ایک ہفتے سے کثیر جہتی پالیسی بنا کر عرب ممالک میں صفائی دینے لگی ہے۔

اندرون ملک ہندوتوا کے ہزاروں پیروکاروں نے سوشل میڈیا پر حکومت کی اس پالیسی کو نشانہ بنایا اور مسلمانوں سے معافی مانگنے کے بجائے قطر سمیت دوسرے ملکوں پر بم برسانے کی صلاح دی۔

ہندوتوا کے کارکنوں کو پہلی بار مسلم دنیا کے اتحاد کا احساس ہوا جب اس نے متحد ہو کر توہین مذہب کے بیان پر بھارتی حکومت پر نشانہ سادھا۔

برلن میں رہائش پذیر پروفیسر روہت کمار کہتے ہیں: ’ہندو راشٹر بنانے کا جو خواب ہے اس کی سرحدیں افغانستان سے لے کر انڈونیشیا تک جاتی ہیں، جو پھر پھیل کر وسط ایشیا کو اپنی سرحدوں میں شامل کر سکتا ہے، مگر ہندو راشٹر کا خواب دیکھنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ جب یہ سارے دیش راشٹر میں شامل ہو جائیں گے تو ہندوؤں کی آبادی اقلیت میں رہ جائے گی۔ اگر ہندوتوا والے ایسا ہی چاہتے ہیں تو مسلم دیشوں کو چاہیے کہ اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں دیر نہ کریں۔‘

ہندوستان کے 20 کروڑ مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچا کر شاید یہ سمجھا جا رہا تھا کہ پیغمبر اسلام کی توہین پر دو ارب مسلمانوں کی دل آزاری کے باوجود ہندوتوا کی مسلم کُش پالیسی پر خاموشی برتی جائے گی مگر جو ردعمل سامنے آیا اس سے ان ہندؤوں کی بھی سبکی ہوئی ہے جو سیکیولر روایات پر یقین رکھتے ہیں۔

ہندوستان کی بیشتر آبادی بشمول مسلمانوں کو انتظار ہے کہ کیا ہندوتوا والے اب اقلیت مخالف پالیسیوں سے دستبردار ہوں گے، ہندوستانی آئین کی بالادستی مانیں گے یا پھر اس خطے میں ایک اور تاریخ رقم ہونے جا رہی ہے جس کا حاصل انتشار، خانہ جنگی اور نقل مکانی ہو گا۔


نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ