مولانا ہدایت الرحمٰن کی متنازع انٹرویو پر معذرت

مولانا ہدایت الرحمٰن نے اپنے انٹرویو میں کہی ہوئی کسی ایسی بات پر معذرت کی ہے جس سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہوئی ہو لیکن سوشل میڈیا پران کی ویڈیو کو شیئر کرکے رد عمل دینے کا سلسلہ جاری ہے۔

مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچستان کی حق دو تحریک کے سربراہ ہیں (تصویر: مولانا ہدایت الرحمٰن ٹوئٹر ہینڈل)

صوبہ بلوچستان میں ’حق دو تحریک‘ کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمٰن کے یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلبہ و طالبات کے بارے میں ایک بیان پر تنقید ہورہی ہے جس پر وہ معافی بھی مانگ چکے ہیں۔

مولانا ہدایت الرحمٰن نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر معذرت کرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ میرا انٹرویو پنجاب یونیورسٹی کے چند ایک واقعات سے متعلق تھا۔

انہوں نے مزید لکھا کہ ’اس سے جن لوگوں کی دل آزاری ہوئی ہے میں اپنے بچوں سے معذرت چاہتا ہوں۔‘

مولانا ہدایت الرحمٰن نے گوادر کی سیاست میں اپنے دھرنوں اور لوگوں کی بڑی تعداد میں شمولیت کے باعث شہرت پائی اور بلدیاتی انتخابات میں ان کے نمائندوں نے بڑی تعداد میں کامیابی حاصل کی ہے۔

انٹرویو میں مولانا ہدایت الرحمٰن نے کیا کہا؟

وائرل ویڈیو میں وہ کسی کو بلوچی زبان میں انٹرویو دے رہے ہیں۔ جس میں ایک سوال کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ ’میں پنجاب یونی ورسٹی گیا ہوں۔ اسلام آباد یونیورسٹی بھی گیا تھا۔ یہ غلط پروپیگنڈا ہے۔

’وہاں پر دو طالب علم ہاسٹل کے گلاس پرلڑ پڑے تھے۔ اس کو جماعت اسلامی اور بلوچ طلبہ کے ساتھ ملانا غلط ہے، طلبہ کالج میں لڑتے ہیں۔ ہاسٹل میں لڑتے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی میں کیا ہوا جماعت اسلامی کے طلبہ نے کہا کہ ہم لڑکیوں اور لڑکوں کو پارک میں اکھٹے نہیں بیٹھنے دیں گے۔‘

’ہمارے نوجوان جاتے ہیں وہاں کہتے ہیں کہ میں لڑکی کے ساتھ پارک جاؤں گا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کا کہنا ہے کہ ہم مخلوط سوسائٹی کی اجازت نہیں دیں گے۔‘

’وہ کہتے ہیں کہ اگر وہ بہن بھائی ہیں تو کوئی مسئلہ نہیں اگرغیر لڑکی ہے تو ہم پارک میں نہیں بیٹھنے دیں گے۔‘

مولانا نے کہا کہ ’دوسری جانب بلوچستان یونیورسٹی جائیں جو بلوچ اور پشتون قوم کا گھر ہے۔ جو بلوچ غیرت مند قوم کی سرزمین ہے۔ وہاں آپ کو لڑکے اور لڑکیاں بغل گیر ملیں گے۔ آپ کو پتہ نہیں چلے گا کہ میں یورپ اور لندن کے تعلیمی ادارے میں ہوں یا بلوچ قوم کی سرزمین پر ہوں۔‘

’یہاں پر روزانہ بلوچوں کے جنازے اٹھ رہے ہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ بلوچستان یونیورسٹی سے سکینڈل سامنے آیا ہے کیوں نہ آئے جب ایسی صورتحال ہے۔‘

’اب یہ پڑھنے کے بجائے پارکوں میں بیٹھے ہوں۔ قوم پرستوں نے ماحول بنایا ہے۔ ہر کوئی پارکوں میں لڑکی کے ساتھ گپ شپ میں مشغول ہے۔‘

مولانا ہدایت الرحمٰن نے انٹرویو کرنے والے سے پوچھا کہ ’ایک دوسرا سوال ہے کہ بلوچستان یونیورسٹی کیوں تباہ ہے۔ یہاں پر کوئی جمیعت طلبہ نہیں ہے۔ سوال ہے کیوں تباہ ہے۔ وہاں کیوں تریاق ہے۔ ہاسٹل میں شراب ہے۔ کرسٹل ہے۔ قوم پرستوں سے میرا سوال ہے کہ کیوں تباہ ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اگر میں بلوچستان یونیورسٹی جاؤں تو مجھے نہیں جانے دیں گے۔ میں بلوچ نہیں ہوں؟ جواب یہ ہے کہ طالب علموں کے جھگڑے اور تنازع ہوتے رہتے ہیں۔ ان کو سوشل میڈیا پر بڑھا چڑھا کر نہ اچھالا جائے۔ میں بھی طالب علم  رہ چکا ہوں۔‘

’میں نے خود گوادر، تربت کے طالب علموں کو پنجاب یونیورسٹی میں داخل کروایا۔ میں نےان کے ہاسٹل کا بندوبست کیا۔ یہ قوم پرستوں کی مخالفت ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ وہاں ان کو نقل کرنے اور ڈانس کرنے دیں۔ کیا والدین ان کو ڈانس کرنے کے لیے بھیجتےہیں یا پڑھنے کے لیے بھیجتے ہیں؟‘

اس انٹرویو پر سوشل میڈٰیا پر مختلف تبصرےہورہے ہیں۔ جن میں ایک عابد میرنے اپنے فیس بک پیج پر مولانا ہدایت الرحمٰن کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھتےہیں کہ ’سبز ہلالی پرچم اور مذہبی نعرے کے ساتھ بلوچ پچ پر کھیلنا ایسا سہل نہیں، مولانا۔ یہاں بڑے بڑے شاہ سوار چت ہوگئے، اگلا شاٹ احتیاط سے کھیلیے گا۔ آپ کسی بھی وقت بولڈ ہوسکتے ہیں۔ آپ کے پاس مزید غلطی کی گنجائش نہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب جب مولانا ہدایت الرحمان کے ترجمان حفیظ کھیازئی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس کی تصدیق کی کہ انٹرویو مولانا ہدایت الرحمٰن کا ہے لیکن یہ بہت پرانا ہے۔

حفیظ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جس تناظر میں مولانا ہدایت الرحمان بات کررہے ہیں وہ پنجاب یونیورسٹی کا واقعہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب دو لوگ گلاس پر لڑیں تو اس سے کسی کی سیاسی اور تنظیمی وابستگی کو نہ جوڑا جائے۔

انہوں نے کہا کہ مولانا ہدایت الرحمٰن انٹرویو میں جمیعت طلبہ کے یونیورسٹیوں کے حوالے سے موقف کو بیان کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنے انٹرویو میں کہیں بلوچ کو نامزد نہیں کیا۔

ترجمان نے کہا کہ یہ کچھ لوگوں کی کوشش ہے کہ مولانا کی مقبولیت کو نقصان پہنچائیں۔ یونیورسٹیوں میں جھگڑے ہوتے رہتے ہیں۔ سب جگہوں پر ایک تنظیم کا ہاتھ نہیں ہوتا۔

نولانا ہدایت الرحمٰن کے ترجمان نے کہا کہ انٹرویو کو وائرل کرنے کا مقصد مولانا ہدایت الرحمٰن اور ان کی تنظیم کو عوام میں کمزور کیا جائے۔ مولانا ہدایت الرحمان نے اس پر سوشل میڈیا پر معذرت بھی کی ہے۔ انہوں نے کہا انٹرویو کو اس تناظر میں دیکھا جائے جس پر بات ہورہی ہے۔

حفیظ نے بتایا کہ بلوچستان کی سیاست میں نواب سردار، وڈیرے کا بیٹا بیان دے تو اس پر سر آنکھوں پر رکھا جاتا ہے۔ اس پر رد عمل کم ہوتا ہے۔ جب کسی غریب کا بیٹا آگے جارہا ہو تو واویلا مچتا ہے۔

ان کے مطابق مولانا نے اب تک 45 سے زائد ایسے لوگوں کو الیکشن میں کامیاب کرایا جن کےپاس کھانے کو نہیں تو جب میر وڈیرے ہاریں گے تو ردعمل آئے گا۔

انہوں نے کہا کہ یہ سیاسی جنگ ہے۔ اس میں اتارچڑھاؤ آئے گا۔ انہوں نے یہ عزم کیا ہے کہ بلوچستان میں جو جبر اور ظلم ہے اس پر آواز اٹھائیں گے۔ اس پرجمہوری اور آئینی طریقے سے احتجاج کرتے رہیں گے۔

مثلانا ہدایت الرحمٰن کے ترجمان حفیظ نے بتایا کہ لوگوں کو مولانا کی کامیابی سے خطرہ ہے۔ جو میر وٖڈیرے ہیں۔ ان کی بسائی ریاست ختم ہوگئی ہے۔ ان کو خطرہ ہے کہ جو جھٹکا ابھی ان کو لگا ہے ان کو پتہ ہے کہ دوسرا جھٹکا انہیں صوبائی الیکشن اور قومی میں لگنے والا ہے۔

ادھر بلوچستان یونیورسٹی کے ایک ویڈیو میں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پجار کے چیئرمین زبیر بلوچ نے مولانا ہدایت الرحمان کے الزامات کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ان کو ثابت کرنا ہوگا۔

گو کہ مولانا ہدایت الرحمٰن نے اپنے انٹرویو میں کہی ہوئی کسی ایسی بات پر معذرت کی ہے جس سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہوئی ہو لیکن سوشل میڈیا پران کی ویڈیو کو شیئر کرکے رد عمل دینے کا سلسلہ جاری ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان