جرمنی: یوکرین جنگ کے سائے میں جی سیون رہنماؤں کا اجلاس

یوکرین جنگ کے تناظر میں اجلاس میں بڑھتی ہوئی خوراک اور ایندھن کی قیمتوں سمیت موسمیاتی تبدیلیوں، ’چین کے جارحانہ رویے‘ اور آمریت کے عروج پر بھی روشنی ڈالی جائے گی۔

سات جمہوریت پسند ممالک کے گروپ جی سیون کا تین روزہ سربراہی اجلاس اتوار سے جرمنی میں شروع ہوگیا ہے، جس کے دوران یوکرین جنگ، اس کے نتائج، خوراک اور ایندھن کی قلت جیسے مسائل کو زیرِ بحث لایا جائے گا۔

جرمنی کے باویرین الپس میں واقع ایلماؤ قلعے میں ہونے والے اجلاس میں برطانوی، کینیڈین، فرانسیسی، جرمن، اطالوی، جاپانی اور امریکی رہنما شریک ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق  یوکرین جنگ کے تناظر میں اجلاس میں بڑھتی ہوئی خوراک اور ایندھن کی قیمتوں سمیت موسمیاتی تبدیلی، ’چین کے جارحانہ رویے‘ اور آمریت کے عروج پر بھی روشنی ڈالی جائے گی۔

اس بات کا امکان ہے کہ جی سیون اجلاس میں شامل رہنما اس عزم کا اظہار کریں کہ جب تک ضروری ہو یوکرین کی حمایت اور کریملن پر دباؤ بڑھایا جائے گا، تاہم یہ ممالک پابندیوں سے اجتناب کریں گے، جو مہنگائی کو ہوا دے سکتی ہیں اور بحران کو بڑھا سکتی ہیں۔

یورپی یونین کے ایک عہدیدار نے کہا: ’جی سیون کا بنیادی پیغام اتحاد اور عمل میں ہم آہنگی ہوگا... یہی بنیادی پیغام ہے کہ مشکل وقت میں بھی ہم اپنے اتحاد پر قائم ہیں۔‘

مزید پڑھیے: جی سیون ممالک کی روس اور ایران کو سخت تنبیہ

اس معاملے سے واقف ایک ذریعے نے روئٹرز کو بتایا کہ جی سیون کے شراکت دار روس سے سونے کی درآمد پر پابندی عائد کرنے پر راضی ہیں۔ جرمن حکومت کے ذرائع نے بعد میں کہا کہ عالمی رہنما روسی تیل کی درآمد پر ممکنہ قیمت کی حد کے بارے میں ’تعمیری‘ گفتگو کر رہے تھے۔

توقع ہے کہ جی سیون رہنما توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے نمٹنے اور روسی تیل اور گیس کی درآمدات کو تبدیل کرنے کے اختیارات پر بھی تبادلہ خیال کریں گے۔

جرمن چانسلر نے فروری میں روس کے حملے کے بعد جرمنی کی خارجہ اور دفاعی پالیسی میں انقلاب لانے کا وعدہ کیا تھا، ساتھ ہی انہوں نے 100 ارب یورو کے فنڈ سے فوج کو تقویت دینے اور یوکرین کو ہتھیار بھیجنے کا وعدہ بھی کیا، لیکن اس کے بعد سے ناقدین نے ان پر تاخیر کرنے اور ملے جلے پیغامات بھیجنے کا الزام لگاتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ روس نیٹو کو جنگی فریق کے طور پر سمجھ سکتا ہے اور جوہری جنگ کے خطرے کو اجاگر کر سکتا ہے۔

اس سات ممالک پر مشتمل سمٹ کی بنیاد 1975 میں امیر ترین ممالک کے لیے ایک فورم کے طور پر رکھی گئی تھی، تاکہ اوپیک کے تیل کی پابندی جیسے بحرانوں پر بات کی جا سکے۔

سوویت یونین کے زوال کے چھ سال بعد روس کو تسلیم کرنے کے بعد یہ جی ایٹ بن گیا، لیکن 2014 میں کرائمیا سے الحاق کرنے کے بعد روس کو اس سے ہٹا دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے: ’چین درست ہے: جی سیون ممالک دنیا کو اپنی مرضی سے نہیں چلا سکتے‘

یورپی یونین کے ایک عہدیدار نے کہا کہ جی سیون شراکت دار ممالک یہ تاثر دیں گے کہ خوراک کی قیمتوں میں اضافہ روس کے اقدامات کا نتیجہ ہے اور یوکرین کی جنگ کو مقامی معاملہ سمجھنا بھی غلطی تھی۔

ایک عہدیدار نے کہا: ’یہ اس سے بڑھ کر ہے۔ یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کے آرڈر پر سوال اٹھا رہا ہے۔‘

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن بھی ہفتے کے روز اہم اتحادیوں کے ساتھ ایک متحدہ محاذ اور عالمی معیشت کے مسائل پر گفتگو کے لیے جی سیون سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے پہنچے۔

برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے بھی ہفتے کے روز جی سیون کے ساتھی رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ یوکرین جنگ میں چار ماہ سے گزرنے کے بعد اس معاملے کو ایسے ہی نہ چھوڑ دیں۔ ساتھ ہی انہوں نے کیئف کے لیے نئی مالی مدد کا وعدہ بھی کیا۔

بورس جانسن نے کہا: ’یوکرین جیت سکتا ہے اور وہ جیت جائے گا، لیکن انہیں ایسا کرنے کے لیے ہماری حمایت کی ضرورت ہے۔ اب یوکرین سے دستبردار ہونے کا وقت نہیں ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا