یوکرین جنگ: کیا جی سیون روسی سونے پر پابندی عائد کر سکتا ہے؟

امریکہ اور جرمنی کے درمیان دو طرفہ ملاقات کے آغاز میں صدر بائیڈن نے یوکرین کے معاملے پر قیادت دکھانے پر اولاف شولز کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ روسی صدر ولادی میر پوتن ان کے اتحاد کو توڑنے میں ناکام رہے ہیں۔

26 جون 2022 کی اس تصویر میں جرمنی میں ہونے والے جی سیون سربراہی اجلاس کے دوران جی سیون ممالک کے سربراہوں کو تصویر بنوانے کے لیے ایک ساتھ کھڑے دیکھا جا سکتا ہے(اے ایف پی)

جرمنی میں ہونے والے جی سیون سمٹ کے دوران امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے اتحادیوں کو یوکرین جنگ اور اس کے عالمی خوراک اور ایندھن پر اثرات جیسے مسائل کے تناظر میں ’ساتھ چلنے‘ کی تلقین کی ہے جبکہ امریکہ اور اس کے اتحادی روسی سونے پر پابندی عائد کرنے پر بھی غور کر رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اتوار کو شروع ہونے والے اس سمٹ کے سات امیر ممالک کے سربراہان جرمنی میں جمع ہوئے اور روس سے سونے کی درآمد پر پابندی لگانے کے علاوہ یوکرین پر حملے کے بعد مالی امداد کے ذرائع بند کرنے پر بھی غور کیا۔ مگر یہ واضح نہ ہوسکا کہ ان معاملات پر تمام شراکت داروں میں ہم آہنگی ہو سکی یا نہیں۔

یورپی کونسل کے صدر چارلس مشل نے کہا کہ اس مسئلے پر احتیاط سے مزید بات چیت کی ضرورت ہے۔

ادھر برطانوی حکومت نے اتوار کو کہا ہے کہ برطانیہ، امریکہ، جاپان اور کینیڈا نے روسی سونے کی نئی درآمدات پر پابندی پر اتفاق کیا ہے۔

برطانیہ کا کہنا ہے کہ اس پابندی کا مقصد دولت مند روسیوں کے لیے ہے جو مغربی پابندیوں کے مالی اثرات کو کم کرنے کے لیے سونے کے بنڈل خرید رہے ہیں۔ روسی سونے کی برآمدات گذشتہ سال 15.5 بلین ڈالر کی تھیں۔

جرمنی کے ایک اہلکار نے روئٹرز کو بتایا کہ برطانیہ، فرانس، امریکہ، جرمنی، جاپان، اٹلی اور کینیڈا کے جی سیون رہنما بھی روسی تیل کی ممکنہ قیمت کی حد پر ’تعمیری‘ بات چیت کر رہے تھے۔ جبکہ فرانسیسی ایوان صدر کے ایک اہلکار کے مطابق اس سمٹ میں پیرس تیل اور گیس کی قیمتوں میں کمی کے لیے زور دے گا اور وہ امریکی تجویز پر بات کرنے کے لیے تیار ہے۔

اس کے علاوہ جی سیون رہنماؤں نے چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے اور خوراک اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات کو کم کرنے کے لیے ترقی پذیر ممالک کے لیے 600 ارب ڈالر نجی اور عوامی فنڈز جمع کرنے کے عہد پر بھی اتفاق کیا۔

سمٹ کے میزبان جرمن چانسلر اولاف شولز نے اس سربراہی اجلاس میں سینیگال، ارجنٹائن، انڈونیشیا، بھارت اور جنوبی افریقہ کو شراکت دار ممالک کے طور پر مدعو کر رکھا ہے جبکہ کئی ترقی پذیر ممالک روس پر مغربی پابندیوں سے ہونے والے نقصان کے بارے میں فکر مند ہیں۔

اس حوالے سے آکسفیم اور دیگر گروپس نے کہا کہ ’ترقی پذیر ممالک کے لیے خوراک کی قیمتوں میں اضافے سے ہونے والے اثرات گہرے ہیں۔‘

ان گروپس کا کہنا ہے کہ ’جی سیون رہنما خوراک کے بحران سے متاثرہ افراد کی مدد کرنے، غریب ترین ممالک کے قرضوں کو منسوخ کرنے اور خوراک کے بحران اور موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ میں ترقی پذیر ممالک کی مدد کے لیے ضرورت سے زیادہ کارپوریٹ منافع پر ٹیکس لگائیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فروری میں جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو مغربی ممالک نے کیئف کی حمایت کی لیکن جنگ میں چار ماہ سے زیادہ عرصے کے بعد اس اتحاد کو سخت حالات کا سامنا کرنا پڑا جب ان کے اپنے شہریوں کو بڑھتی ہوئی مہنگائی اور توانائی کی قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

امریکہ اور جرمنی کے درمیان دو طرفہ ملاقات کے آغاز میں صدر بائیڈن نے یوکرین کے معاملے پر قیادت دکھانے پر اولاف شولز کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ روسی صدر ولادی میر پوتن ان کے اتحاد کو توڑنے میں ناکام رہے ہیں۔

بائیڈن نے کہا: ’پوتن شروع سے ہی اس بات پر اعتماد کر رہے ہیں کہ کسی طرح نیٹو اور جی سیون ٹوٹ جائیں گے۔ لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا۔‘

انہوں نے اتوار کے روز یوکرین کے دارالحکومت کیئف میں ہونے والے روسی میزائل حملے کو بربریت قرار دیا ہے۔

یوکرین کے تنازعے کے بعد عالمی سطح پر توانائی اور خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اقتصادی ترقی کو متاثر کر رہی ہیں، جس پر اقوام متحدہ نے ’پہلے سے بڑے عالمی بھوک کے بحران‘ کی وارننگ دی ہے۔ اس کے علاوہ موسمیاتی تبدیلی بھی جی سیون کے ایجنڈے میں شامل ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا