سود سے پاک بینکاری: کیا پاکستان میں بینکوں کا بائیکاٹ ممکن ہے؟

سٹیٹ بینک آف پاکستان كا موقف ہے كہ سپریم کورٹ میں درخواست کا مقصد عدالت عظمیٰ سے بعض تشریحات کی وضاحت طلب كرنا ہے۔

چھ اپریل 2022 کی اس تصویر میں پاکستانی سپریم کورٹ کی عمارت کو دیکھا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے مرکزی بینک سٹیٹ بینک آف پاکستان نے پاکستانی سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی ہے جس میں شریعت کورٹ کے فیصلے پر تشریحات طلب کی گئی ہیں(اے ایف پی)

پاکستان میں سٹیٹ بینک آف پاکستان اور بعض کمرشل بینکوں کی جانب سے وفاقی شرعی عدالت کے سودی نظام کے خاتمے سے متعلق فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواست پر گرما گرم بحث جاری ہے۔

علما کرام، صحافیوں اور معاشرے کے دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ سودی نظام کے خاتمے سے متعلق فیصلے کے خلاف درخواستوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

اس سلسلے میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر لوگ اظہار خیال کر رہے ہیں، جبکہ ٹوئٹر پر ملک کے چار کمرشل بینکوں کے بائیکاٹ سے متعلق ٹرینڈ بھی چلایا جا رہا ہے۔

مذہبی جماعتوں اور علما نے عوام سے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل دائر کرنے والے کمرشل بینکوں کے بائیکاٹ کرنے کو کہا ہے جبکہ سوشل میڈیا کے بعض صارفین نے احتجاجاً اپنے بینک اکاؤنٹس بند کرنے کا دعوی بھی کیا ہے۔

تاہم بینکر اور بلاسود بینکاری پر کتاب کے مصنف انور عباسی نے بائیکاٹ کے مطالبے کو جذباتی قدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ مذہبی جماعتوں یا سکالرز کے کہنے پر کوئی بینکوں سے پیسے نہیں نکالے گا۔

’ہو سکتا ہے چند ایک لوگ ایسا کر لیں لیکن اس اپیل پر کوئی بڑا اثر نہیں ہونے لگا۔‘

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’علما یا مذہبی جماعتیں اگر بائیکاٹ کا کہتی ہیں تو انہیں کمرشل بینکوں کا متبادل بھی فراہم کرنا ہو گا تاکہ لوگوں کے کام متاثر نہ ہو پائیں۔

’اگر کمرشل بینک کا صارف اپنا اکاؤنٹ ختم کر دیتا ہے، تو وہ اپنے پیسے کہاں رکھے گا؟ بائیکاٹ کا نعرہ لگانے والوں کو بتانا ہوگا۔‘

انور عباسی کا مزید کہنا تھا کہ کمرشل بینکوں کا کاروبار کھربوں کے ڈیپازٹس سے چلتا ہے اور چند ایک ہزار یا لاکھوں روپے نکالنے سے بظاہر ان پر کوئی زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔

دوسری طرف اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ پروفیسر قبلہ ایاز نے منگل کو وزیراعظم شہباز شریف کے نام خط میں سٹیٹ بینک کی نظرثانی کی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے ملک سے سودی نظام کے خاتمے کے لیے ٹاسک فورس کی تشکیل کی تجویز دی ہے۔

تاہم سٹیٹ بینک كا موقف ہے كہ سپریم کورٹ میں درخواست کا مقصد عدالت عظمیٰ سے بعض تشریحات کی وضاحت طلب كرنا ہے۔

مرکزی بینک کے ایک اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’وفاقی شرعی عدالت كے فیصلے میں کئی ابہام موجود ہیں جن كی وضاحت كی خاطر سپریم کورٹ سے رجوع كیا گیا ہے۔‘

’سٹیٹ بینک بالکل بھی بلا سود بینكاری کے خاتمے کے خلاف نہیں بلکہ مركزی بینک كی کوششوں سے ہی پاکستان میں اسلامی بینكاری کو فروغ ملا ہے۔‘

سٹیٹ بینک کے اہلکار نے جو اس معاملے پر بولنے کے مجاز نہیں ہیں، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا كہا كہ سٹیٹ بینک نے وفاقی شرعی عدالت كے فیصلے كا خیرمقدم كرتے ہوئے عدالت عظمیٰ سے رہنمائی طلب کی ہے، تاکہ اہداف وقت مقررہ کے اندر پورے کیے جا سکیں۔

وفاقی شرعی عدالت نے 28 اپریل کو 20 سال سے زیر سماعت درخواستوں پر تاریخی فیصلے کے نتیجے میں آئندہ پانچ سال میں (31 دسمبر 2027 تک) ملک کے بینکنگ نظام سے سود کے خاتمے کا حکم صادر کیا تھا۔

شرعی عدالت نے فیصلے میں کہا: ’1839 سے نافذالعمل انٹرسٹ ایکٹ مکمل طور پر اسلامی شریعت کے خلاف ہے، لہذا سود کے لیے سہولت کاری کرنے والے تمام دوسرے قوانین اور مختلف قوانین کی شقیں غیر شرعی قرار دی جاتی ہیں۔‘

عدالت نے غیرملکی قرضوں پر سود کی ادائیگی یا وصولی کو بھی غیر اسلامی قرار دیا اور ریاست پاکستان کو اس نظام سے جان چھڑانے کا حکم دیا۔

وفاقی شرعی عدالت آئین پاکستان کے تحت قائم ایک عدالت ہے جسے یہ جانچنے اور اس بات کا تعین کرنے کا اختیار حاصل ہے کہ ملکی قوانین اسلامی شرعی قوانین کے مطابق ہیں یا نہیں۔

سٹیٹ بینک کی درخواست میں کیا ہے؟

سٹیٹ بینک نے تین روز قبل وفاقی شرعی عدالت کے سودی نظام کے خاتمے سے متعلق 28 اپریل کے فیصلے پر نظرثانی کی خاطر سپریم كورٹ میں درخواست دائر کی۔

سپریم کورٹ میں دائر کی گئی سٹیٹ بینک کی درخواست کی ابتدا کچھ یوں ہوتی ہے: ’درخواست کنندہ اس معزز عدالت کے سامنے اس جذبے اور ارادے کی تعریف کرتی ہے، جو وفاقی شرعی عدالت کے 28 اپریل 2022 کے فیصلے کی وجوہات بنے، تاہم مذکورہ فیصلے میں بعض تضادات موجود ہیں جن کی درخواست کنندہ وضاحت چاہتا ہے۔‘

معروف وکیل سلمان اکرم راجہ کے ذریعے دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے مالیاتی اور مانیٹری فریم ورک کا سب سے بڑا نگہبان اور ریگولیٹر ہونے کے ناطے سٹیٹ بینک اسلام کے احکامات بالخصوص ربا کی تعمیل کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے اور ملک کے مالیاتی شعبے کے استحکام اور سلامتی کا تحفظ کرتا ہے جو عالمی مالیاتی نظام کے حصے کے طور پر کام کرتا ہے۔

درخواست میں سٹیٹ بینک نے ملک میں اسلامی بینکاری کے فروغ کی کوششوں پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے میں بھی تسلیم کیا گیا۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ ملک میں بینکاری نظام کو شریعت کے مطابق بنانے کے لیے بتدریج طریقہ کار رواں ملینیم کے آغاز میں شروع کیا گیا اور اسلامی اور روایتی بینکوں کو بیک وقت کام کرنے کی اجازت دی گئی۔

’یہ طریقہ کار کامیاب ثابت ہوا ہے، اثاثوں کے لحاظ سے اسلامی بینکوں کا اب ملک کے مجموعی بینکاری نظام کا 19.4 فیصد حصہ ہے اور ڈیپازٹس کے لحاظ سے یہ حصہ 20 فیصد ہے، جبكہ ملک میں اس وقت 22 مكمل اسلامی بینکاری ادارے كام كر رہے ہیں، جن میں پانچ مکمل اسلامی بینک اور اسلامی برانچوں كے ساتھ 17 روایتی بینک كام كر رہے ہیں۔‘

سٹیٹ بینک كی درخواست میں دعویٰ كیا گیا كہ اس كا شمار دنیا کے ان چند ریگولیٹرز میں ہوتا ہے جنہوں نے اسلامی بینکاری کے لیے ایک جامع قانونی، ریگولیٹری اور شرعی کمپلائنٹ فریم ورک متعارف كروایا۔

شرعی عدالت كے فیصلے میں ابہام یا تضادات

سٹیٹ بینک كی درخواست میں وفاقی شرعی عدالت كے 20 اپریل 2022 كے فیصلے میں جن تضادات یا ابہام كی طرف اشارہ كیا گیا ہے، ان میں سے اہم درج ذیل ہیں۔

1۔ وفاقی شرعی عدالت كے فیصلے میں پاکستان کو دنیا كے دوسرے ممالک اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے قرضوں یا ادائیگیوں یا وصولیوں کے معاملات اسلامی شریعت کے مطابق کرنے کی ہدایت کی گئی اور اس سلسلے میں سکوک کا خصوصاً ذکر کیا گیا۔

سٹیٹ بینک کی درخواست میں کہا گیا کہ اگرچہ دنیا میں مالیات کے اسلامی طریقے غیر ملکی فراہم کنندگان کے لیے دلچسپی کا بڑھتا ہوا شعبہ ہے، تاہم کسی ادارے یا حکومت کی جانب سے خاص پیش رفت کے حوالے سے مالیات کے مخصوص طریقوں کو اپنانا ریاست پاکستان کے ہاتھ میں نہیں ہے۔

’بین الاقوامی مالیاتی فراہم کنندگان کے ساتھ فنڈنگ کے انتظامات ریاست پاکستان کے نامزد عہدیداروں/حکام کے ذریعہ کیے جانے والے مذاکرات کا معاملہ ہیں۔ اس طرح کے انتظامات کی شکل اور شرائط پاکستان میں نافذ کسی قانون کے تحت نہیں ہیں بلکہ یہ ان بہترین نتائج کا نتیجہ ہیں جو ریاست بین الاقوامی مالیات کے میدان میں حاصل کر سکتی ہے۔‘

2۔ سودی بینكاری كے خاتمے سے متعلق فیصلے كے پیراگراف 163 میں آئین کے آرٹیکل 203 ڈی (2) بی كا حوالہ دیا گیا ہے، جو وفاقی شرعی عدالت كو كسی خاص قانون كے حوالے سے اس كے فیصلے كے نافذالعمل ہونے كے حوالے سے دن مقرر كرنے كا حق دیتا ہے۔

اسی آئینی حق كو استعمال كرتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے میں ملک سے 31 دسمبر 2027 (پانچ سال میں) تک سودی نظام ختم کرنے کی ڈیڈ لائن مقرر کی۔

سٹیٹ بینک كی درخواست میں كہا گیا كہ فیصلے کے پیراگراف 163 میں بیان کردہ پانچ سال کی مدت کسی خاص قانون سے متعلق نہیں ہے۔

درخواست میں مزید كہا گیا ہے كہ پاکستان میں سودی بینکاری کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے بینکنگ کے نظام بنیادی ڈھانچے میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کی ضرورت ہو گی۔

پاکستان کے مرکزی بینک کا موقف ہے کہ ملک میں اسلامی بینکاری کی موجودہ سطح پر پہنچنے کے لیے 20 سال لگے جبکہ مکمل تبدیلی پر اس سے پانچ گنا وقت زیادہ لگ سکتا ہے۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ لین دین کے اخراجات، دستاویزات کی ضروریات اور رسک مینجمنٹ کے حل کی کمی تبدیلی کے عمل پر اضافی دباؤ کی وجہ بنے گی، جبکہ فوری تبدیلی کی صورت میں بینکنگ سیکٹر میں غیر یقینی صورت حال پیدا ہو گی، جو پوری معیشت میں عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہے۔

’تاہم حکومت پاکستان سٹیٹ بنک اور دیگر سٹیک ہولڈرز ملک میں شریعت کے اصولوں کے مطابق سود سے پاک معیشت کے حصول کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘

3۔ وفاقی شرعی عدالت كے فیصلے کے پیراگراف 161 میں پاکستان میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں كو اس سال 31 دسمبر تک اسلام کے احکام کے منافی قرار دیے گئے قوانین میں ضروری ترامیم كے ذریعے انہیں اسلامی شریعت كے مطابق ڈھالنے كی ہدایت كی گئی ہے۔

سٹیٹ بینک کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں کو قانون سازی کی صلاحیت کے حوالے سے 31 دسمبر 2022 کی کٹ آف تاریخ سے مشروط نہیں کیا جا سکتا۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ذریعے نافذ کیے جانے والے قوانین کا صرف ایک ممکنہ اثر ہی ہو گا، پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں کی قانون سازی کی اہلیت کو محدود کرنے کے مترادف ہے، جو آئین کی خلاف ورزی ہو گی۔

4۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے میں تدریج کے اصول کو شریعت کے بنیادی اصول کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ شریعت کا اطلاق ملک کے استحکام اور سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جانا ہے، جبکہ معیشت پر کسی منفی اثر سے بچنے کے لیے فقہ المالات (کسی عمل کے امکانات یا نتائج کی فقہ) کے اصولوں کو ذہن میں رکھنا ضروری قرار دیا ہے اور اس کے ساتھ فقہ الواقعی (حقیقت کی فقہ) جمع کی گئی ہے۔

’اس لیے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے میں مقرر کردہ پانچ سال کی ٹائم لائن (31 دسمبر 2027 کو ختم ہونے والی) مکمل طور پر سبجیکٹیو اندازے پر مبنی ہے، جو حقائق سے متعلق نہیں اور اس معزز عدالت (سپریم کورٹ) کی مداخلت کی متقاضی ہے۔‘

5۔ وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے میں بینکنگ کمپنیز رولز 1963 کے قاعدہ 9 کو باطل قرار دینے کا حکم بھی دیا ہے۔

اس متعلق سٹیٹ بینک آف پاکستان کی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ مذکورہ قانون منظور شدہ سیکیورٹیز کے غیر ملکی جاری کنندگان کی طرف سے ادا کردہ سود کی وصولی فراہم کرتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر تجارت اور مالیات میں مصروف افراد اور کاروبار اکثر پاکستان سے باہر جاری کردہ سکیورٹیز رکھنے آتے ہیں جن میں سود ہوتا ہے۔ قاعدہ 9(2) پاکستان کے اندر اس طرح کے سود کی وصولی کا طریقہ کار فراہم کرتا ہے۔

بینکنگ کمپنیز رولز 1963 کے قاعدہ 9(2) کو ختم کرنے کے اعلان پر سپریم کورٹ کی مداخلت اور مناسب حکم کی ضرورت ہے۔

6۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے میں ڈیفنس سیونگ سرٹیفکیٹس رولز 1966 اور خصوصی بچت سرٹیفکیٹس رولز 1990 کی بعض شقوں کو غیر اسلام قرار دیا اگر یہ حاملین کو ایک مقررہ رقم کی ادائیگی کی اجازت دیتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سلسلے میں مرکزی بینک کی درخواست میں کہا گیا کہ فیصلے میں مذکورہ سیونگ سرٹیفکیٹس کے اجرا اور فروخت کے ذریعے جمع ہونے والی رقوم کو سٹیٹ بینک کی طرف سے منظور شدہ شریعت کے مطابق طریقوں میں سے کسی میں بھی لگایا جائے۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ قرض کی رقم حکومت کے لیے فنڈز کا ایک اہم ذریعہ ہے، جو حکومت کے روزمرہ کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں، اور ایسے اثاثوں میں سرمایہ کاری کے قابل نہیں ہیں جو بچت سرٹیفکیٹس کے حاملین کے ساتھ اشتراک کرنے کے لیے واپسی حاصل کر سکتے ہیں۔ ’سیونگ سرٹیفکیٹس اور عام طور پر ملکی سطح پر اٹھائے گئے عوامی قرضوں کے حوالے سے معزز وفاقی شرعی عدالت کی طرف سے دی گئی ہدایات کے حوالے سے معزز عدالت عظمیٰ سے رہنمائی طلب کی گئی ہے۔‘

7۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ وفاقی شرعی عدالت نے سپریم کورٹ کے 24 جون 2002 کے نظرثانی فیصلے میں آرٹیکل 9 کے اثر سے متعلق ریمانڈ آرڈر میں موجود ہدایت پر عمل نہیں کیا۔

نظر ثانی درخواست کی مخالفت

سٹیٹ بینک اور کمرشل بینکوں کی جانب سے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواستوں کے خلاف ملک میں شدید ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔

مذہبی سکالر راغب نعیمی کے مطابق ملک کے مذہبی طبقے کا اتفاق ہے کہ سٹیٹ بینک کے اس عمل سے مسلم لیگ ن کی حکومت کے لیے مسائل کھڑے ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ سٹیٹ بینک کو مزید وقت مانگنے کے بجائے سود سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے میکنیزم بنانا چاہیے تھا، جو 40 سال گزرنے کے باوجود نظر نہیں آ رہا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے مزید کہا کہ سٹیٹ بینک نے بلا سود بینکاری کو موخر کرنے کے لیے وہی طریقہ اختیار کیا جو عام طور پر معاملات کو پس پشت ڈالنے کے لیے اپنایا جاتا ہے۔

راغب نعیمی کا کہنا تھا کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے میں ابہام ہو سکتے ہیں، لیکن انہیں ابہام کے طور پر ہی لیا جائے، اور انہیں حل کرنے کی سعی کرنا چاہیے نہ کہ معاملات کو مزید تاخیر کا نشانہ بنایا جائے۔

تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان کے سربراہ مفتی منیب الرحمان نے ایک بیان میں کہا کہ نظر ثانی کی درخواست دائر کرنے کے بجائے سٹیٹ بینک اور حکومت کو بااختیار ٹاسک فورس، کمیشن یا کمیٹی قائم کرنا چاہیے تھی جو بلا سود بینکاری کے خاتمے کے راستے میں حائل رکاٹوں کے خاتمے میں مدد فراہم کرتی۔

مفتی منیب الرحمان کے خیال میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کا سپریم کا دروازہ کھٹکھٹانا معاملے کو التوا کا شکار کرنے کے مترادف ہے۔

مفتی منیب الرحمان نے عوام سے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے والے کمرشل بینکوں کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا۔

اسلامی نظریاتی کونسل

اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین پروفیسر قبلہ ایاز نے وزیراعظم شہباز شریف کو خط میں لکھا کہ ان کی تجویز کردہ ٹاسک فورس سود کے خلاف فیصلے پر عمل درآمد کے لیے سفارشات مرتب کرے۔

انہوں نے خط میں لکھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کو بھی ٹاسک فورس کا حصہ بنایا جائے۔

پروفیسر قبلہ ایاز نے کہا اسلامی نظریاتی کونسل نے 30 مئی کو کمرشل بینکوں کے سربراہان سے بھی اپیل میں نہ جانے کی درخواست کی تھی لیکن سٹیٹ بینک وفاقی شرعی عدالت کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام نے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اس فیصلے کو ناپسند کیا ہے۔

قبلہ ایاز نے وزیراعظم سے درخواست کی ہے کہ وہ اپیل کو واپس لینے اور ٹاسک فورس کی تشکیل میں کردار ادا کریں۔

یاد رہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے 1980 میں بلا سود بینکاری پر ایک تفصیلی رپورٹ پیش کی تھی، جو ملک میں اس قسم کی بینکنگ کے لیے مشعل راہ ثابت ہوئی۔

سٹیٹ بینک کا موقف

مرکزی بینک کے ایک سینئیر اہلکار کا کہنا تھا کہ ان کا ادارہ چاہتا ہے کہ ان معاملات پر بحث و مباحثہ کیا جائے تاکہ کوششوں کا نتیجہ بہتر بنایا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ سٹیٹ آف پاکستان یا کوئی بھی دوسرا بینک پاکستان میں بلاسود بینکاری کے نفاذ کے خلاف نہیں ہیں، بلکہ چاہتے ہیں کہ اس سلسلے میں موجود ابہام کو دور کیا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ بینکوں نے سپریم کورٹ کے پاس جانا مناسب سمجھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت