جوڈو اپنے گھر جاپان میں تنزلی کا شکار کیوں؟

جاپان جوڈو کا گھر ہے لیکن ہر قیمت پر جیت کی سوچ، جسمانی سزا اور وزن کم کرنے کے لیے دباؤ جیسے عوامل بچوں کو اس کھیل کو چھوڑنے پر مجبور اور روایتی گڑھ میں اس کھیل کے مستقبل کے حوالے سے خوف کی فضا پیدا کر رہے ہیں۔

جوڈو جیسے کھیل کے اپنے گھر میں ہر قیمت پر جیت کی سوچ، جسمانی سزا اور وزن کم کرنے کے لیے دباؤ جیسے رویے اس کے انحطاط کا باعث بن رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ مسئلہ کتنا بڑا ہے اس پر روشنی ڈالتے ہوئے آل جاپان جوڈو فیڈریشن نے 10 سال  کے بچوں کے لیے باوقار ملک گیر ٹورنامنٹ منسوخ کر دیا اور خبردار کیا کہ ان پر بہت زیادہ دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔

اولمپک گوڈ میڈلسٹ نوریکومیزوگوچی کے بقول: ’جب پرائمری سکول کے بچوں کا ٹورنامنٹ شروع ہوا تو ہمیں کھیل کے دوران ہونے والے حادثات میں حادثات میں بچوں کی اموات دکھائی دینے لگیں۔‘

’جس سے بحران کا احساس بڑھ گیا۔ جاپان نے جوڈو میں سونے کے کئی تمغے جیتے ہیں لیکن اس میں خاص طور پر جاں لیوا حادثات کی تعداد بھی زیادہ ہے۔ یہ صورت حال واضح طور پر سنگین ہے۔‘

مارشل آرٹ کی مشق کے دوران ہلاک یا زخمی ہونے والوں کے قائم پریشر گروپ کا کہنا ہے کہ 1983 اور 2016 کے دوران جاپان کے سکولوں میں جوڈو سے جڑی 121 اموات رپورٹ کی گئیں۔

اولمپکس جوڈو میڈل ٹیبل پر جاپان باقاعدگی سے غالب  ہے لیکن فیڈریشن کے صدر یاسوہیرو یاماشیتا نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس کھیل کی اقدار ختم ہو رہی ہیں کیوں کہ والدین اور کوچ تھوڑے عرصے کے لیے برقرار رہنے والی شان وشوکت کے متلاشی ہیں۔

یاماشیتا جو جاپان کی اولمپک کمیٹی کے صدر بھی ہیں انہوں نے 1984 میں امریکی شہر لاس اینجلس میں ہونے کھیلوں کے مقابلوں میں سونے کا تمغہ جیتا۔ ان کا کہنا ہے کہ’جوڈو ایسا کھیل ہے جو انسانیت پر زور دیتا ہے۔‘

’اگر آپ کو جیتنے کے سوا کسی چیز کی کوئی اہمیت نظر نہیں آتی ہے اور صرف نتیجہ ہی اہمیت رکھتا ہو تو اس صورت میں بات بگڑ جاتی ہے۔‘

جوڈو فیڈریشن کے اعداد و شمار کے مطابق جاپان میں جوڈو میں حصہ لینے والے افراد کی تعداد 2004 سے تقریباً نصف کم ہو کر تقریباً ایک لاکھ 20 ہزار رہ گئی ہے۔ بچوں کی تعداد میں سب سے زیادہ کمی آئی ہے۔

اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ پرائمری سکول کے بچوں کو وزن کم کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات چھ کلوگرام (13 پاؤنڈ) تک، تاکہ وہ کم وزن والی کیٹگری میں میں مقابلہ کر سکیں۔ چھوٹے بچوں کو وہی خطرناک کام سکھائے جاتی ہیں جیسے اولمپک ایتھلیٹس کو سکھایا جاتا ہے۔ سخت تربیت کے نتیجے میں وہ زخمی ہو جاتے ہیں اور ان کی توانائی زائل ہو جاتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

والدین اور کوچز میچز کے دوران ریفریز کو برا بھلا کہتے ہیں جب کہ جسمانی سزا اب بھی موجود ہے۔ یہ کھیل اصلاحات کے باوجود گذشتہ کئی سال سے بدسلوکی اور ڈرانے دھمکانے کے سکینڈلز کا شکار ہے۔

آل جاپان جوڈو فیڈریشن نے مارچ میں 10 سے 12 سال کی عمر کے مخصوص کے بچوں کے لیے ہونے والا قومی ٹورنامنٹ منسوخ کر کے قدم اٹھایا۔ اس ٹورنامنٹ کی جگہ لیکچرز اور تربیتی سیشنز کا منصوبہ بنایا گیا۔

ردعمل شدید تھا۔ ناراض والدین اور کوچز نے فیڈریشن پر بچوں کے خواب چکنا چور کرنے اور جوڈو کے گڑھ کے طور پر جاپان کی ساکھ کو خطرے میں ڈالنے کا الزام لگایا۔

جونیئر ہائی سکول کی طالبہ 13 سالہ ریون فوکو گذشتہ سال جوڈو کے علاقائی چیمپین بنے۔ انہوں نے شیزوکا کے وسطی علاقائی میں واقع اپنے جوڈو کلب میں اے ایف پی کو بتایا کہ انہیں اس بات پر افسوس ہے کہ اس سال پرائمری سکول کے بچوں کے لیے کوئی ٹورنامنٹ نہیں ہو گا جسے وہ اپنا ہدف بنا سکیں۔

کوسوکے موروئی جن کی 12 سالہ بیٹی اسی کلب میں جاتی ہیں، نے کہا کہ جب انہوں نے پہلی بار یہ خبر سنی تو وہ مایوس تھے لیکن وجوہات کے بارے میں مزید جاننے کے بعد انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ ایک اچھا فیصلہ تھا۔

یاماشیتا نے کہا کہ ٹورنامنٹ منسوخ کر کے ایسے مسئلے کو اجاگر کیا گیا ڈالی گئی ہے جس کا تعلق جاپانی معاشرے کے ساتھ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کہا کہ’ہمیں مقابلہ منسوخ کرنے کا فیصلہ کیے ہوئے ڈھائی ماہ ہو چکے ہیں اور لوگ اب بھی ٹی وی اور اخبارات میں اس پر بحث کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ اکثریت کی رائے فیصلے کے حق میں ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا