سالوں سے سری لنکا پر راج کرنے والے راج پکشے خاندان کا ’عروج و زوال ‘

راج پکشے خاندان کا زوال اپریل میں شروع ہوا جب مظاہروں کے باعث وزیر خزانہ سمیت راج پکشے کو اپنے تین قریبی رشتہ داروں کو کابینہ اور دیگر وزارتوں سے بے دخل کرنا پڑا۔

سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں نو اگست 2020 کو اس وقت منتخب ہونے والے وزیراعظم مہندا راج پکشے اپنے چھوٹے بھائی صدر گوتابایا راج پکشے سے حلف لے رہے ہیں، جو آج ملک چھوڑ پر مالدیپ چلے گئے (اے ایف پی)

معاشی بحران کے باعث جنم لینے والے عوامی غم و غصے اور مظاہروں کے دوران بدھ کو سری لنکا سے فرار ہونے سے پہلے صدر گوٹابایا راج پکشے ملک کے سب سے بااثر خاندان کے چھ ارکان میں سے آخری رکن تھے جو ابھی تک اقتدار سے جڑے ہوئے تھے۔

سری لنکن فضائیہ نے بدھ کو تصدیق کی کہ صدر، ان کی اہلیہ اور دو محافظوں کو ملک سے نکلنے کے لیے طیارہ فراہم کیا گیا۔ امیگریشن اہلکاروں کے مطابق ان کی منزل مالدیپ کا دارالحکومت مالے تھی۔

صدر پکشے نے ملک ایک ایسے وقت میں چھوڑا جب چار روز قبل ایک بڑے حکومت مخالف مظاہرے میں عوام نے ان کی سرکاری رہائش گاہ میں داخل کر ان کے پرتعش صدارتی محل پر قبضہ کر لیا تھا۔

مظاہرین نے وزیراعظم رانیل وکرما سنگھے کی رہائش گاہ پر بھی دھاوا بولا، جنہوں نے کہا کہ وہ نئی حکومت بننے کے بعد اپنا عہدہ چھوڑ دیں گے۔

اقتدار ایک خاندانی معاملہ

مہندا راج پکشے کے 2005 میں صدر منتخب ہونے سے پہلے کئی دہائیوں تک بڑی اراضی کے مالک راج پکشا خاندان نے مقامی سیاست پر غلبہ حاصل کیے رکھا ہے۔

2009 میں جب نسلی تامل باغیوں کو شکست دیتے ہوئے 26 سالہ خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا تو اس وقت مہندا کے چھوٹے بھائی گوتابایا وزارت دفاع میں ایک طاقت ور عہدے پر فائز تھے اور فوجی حکمت عملی ان کے ہاتھ میں تھی۔

مہندا راج پکشے 2015 تک صدر کے عہدے پر رہے جب وہ اپنے سابق معاون کی قیادت میں اپوزیشن اتحاد سے ہار گئے۔ لیکن اس خاندان نے 2019 میں دوبارہ اقتدار میں اس وقت واپسی کی جب گوتابایا نے ایسٹر سنڈے کے دہشت گردانہ خودکش بم دھماکوں کے نتیجے میں سکیورٹی بحال کرنے کے وعدے کے ساتھ صدارتی انتخاب جیتا۔

گوتابایا نے قوم پرستی کو واپس لانے کا عزم کیا جس نے ان کے خاندان کو ملک کی اکثریتی بدھ مت برادری میں مقبول بنایا تھا۔

انہوں نے سلامتی کے علاوہ ملک کو استحکام اور ترقی کے پیغام کے ساتھ معاشی بحران سے نکالنے کا عزم بھی کیا۔ لیکن اس کے برعکس انہوں نے معاشی غلطیوں کا ارتکاب کیا جس نے ملک میں ایک بے مثال اقتصادی اور سیاسی بحران کو جنم دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کی ٹیکس میں کٹوتیوں کی پالیسی سے حکومتی فنڈز ختم ہو گئے۔

ادھر صدر نے ملک کے جنوب میں اپنے آبائی علاقے میں بیرونی قرضوں سے ایک بین الاقوامی بندرگاہ اور ایک ہوائی اڈے سمیت متنازع ترقیاتی منصوبوں پر کام شروع کیا۔

ایسٹر بم دھماکوں، کرونا وبا اور غیر ملکی قرضوں کی وجہ سے سیاحت میں کمی کے باوجود راج پکشے نے اقتصادی مشیروں کی بات نہیں مانی اور ٹیکسوں میں تاریخی کٹوتیوں کا اعلان کر دیا۔ اس اقدام کا مقصد اخراجات کو بڑھانا تھا لیکن ناقدین نے متنبہ کیا کہ اس سے حکومت کے فنڈز میں کمی آئے گی۔

کرونا لاک ڈاؤن اور کیمیائی کھادوں پر غیر منطقی پابندی نے کمزور معیشت کی ریڑھ کی ہڈی توڑ کر رکھ دی۔

ملک کا خزانہ جلد ختم ہو گیا اور کولمبو اپنے بھاری قرضوں کی ادائیگی نہیں کر سکا۔ خوراک، گیس، ایندھن اور ادویات کی قلت نے عوامی غصے کو جنم دیا۔

عوام  نے صدر راج پکشے کی حکومت کو بدانتظامی، بدعنوانی اور اقربا پروری کے طور پر دیکھا اور ان کی حکومت کے خلاف ملک گیر احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

اختتام کا آغاز

راج پکشے خاندان کا زوال اپریل سے اس وقت ہی شروع ہو گیا تھا جب بڑھتے ہوئے مظاہروں کے باعث وزیر خزانہ سمیت راج پکشے کو اپنے تین قریبی رشتہ داروں کو کابینہ اور دیگر وزارتوں سے بے دخل کرنا پڑا۔

مئی میں حکومت کے حامیوں نے تشدد کی نئی لہر میں حکومت مخالف مظاہرین پر دھاوا بول کر نو افراد کو ہلاک کر دیا جس سے مظاہرین کی اس وقت کے وزیراعظم اور گوتابایا کے بھائی مہندا راج پکشے کے خلاف تحریک مزید زور پکڑ گئی جہنیں وزیراعظم کے عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد ایک بھاری قلعہ بند بحری اڈے پر پناہ لینا پڑی۔

لیکن صدر گوتابایا نے اپنا عہدہ چھوڑنے سے انکار کر دیا جس کے بعد ملک کی سڑکوں پر ’گوتا گو ہوم‘ کے نعرے زبان زد عام ہو گئے۔

صدر گوتابایا نے اپنے بھائی مہندا کے مستعفی ہونے کے بعد وکرما سنگھے کو اپنا نجات دہندہ سمجھ کر انہیں وزارت عظمیٰ کا قلمدام تھما دیا۔

وکرما سنگھے ایک تجربہ کار اپوزیشن سیاست دان تھے جنہیں ملک کو پاتال سے نکالنے کے لیے لایا گیا تھا تاہم ان کے پاس کام کرنے کے لیے درکار سیاسی طاقت اور عوامی حمایت کی کمی تھی۔ اور بالآخر عوامی غصہ اور مظاہروں کا سمندر راج پکشے خاندان کے اقتدار کو بہا لے گیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا