کے ٹو: ’شوہر کی لاش کی تصویر نہ لی جائے‘

جان سنوری کی اہلیہ نے اب کے ٹو پر اس سال گرمی میں مہمات کے دوران جانے والے کوہ پیماوٴں سے درخواست کی ہے کہ وہ جان سنوری کی لاش کی کوئی تصویر یا ویڈیو نہ لیں۔

موسم سرما میں کے ٹو سر کرنے کی مہم پر نکلنے والے کوہ پیما محمد علی سدپارہ اور جان سنوری کی یادگار تصویر (فوٹو:جان سنوری ٹوئٹر)

’میرے شوہر کی لاش یا تو محمد علی سدپارہ اور جے پی موہر کے قریب لاکر ان کی باقاعدہ تدفین کی جائے یا کے ٹو سر کرنے کی روٹ سے ہٹائی جائے۔‘

یہ درخواست آئس لینڈ سے تعلق رکھنے والے کوہ پیما جان سنوری کے اہلیہ لینا موئی نے اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں کی ہے۔

جان سنوری 2021 میں پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ اور چلی کے کوہ  پیما جے پی موہر کے ساتھ سردی میں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو سر کرنے کے مہم پر نکلے تھے اور لاپتہ ہوگئے تھے۔

تینوں کوہ پیماوٴں کی تلاش کے لیے حکومت پاکستان نے کئی دنوں تک سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن کیا تھا لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکا تھا۔

بعد میں محمد علی سدپارہ کے صاحبزادے ساجد علی سدپارہ نے ایک بین الاقوامی کوہ پیما و فوٹوگرافر ایلیا سیکلائی کے ساتھ خود ریسکیو آپریشن کیا تھا اور تینوں کی لاشوں کو تلاش کرلیا تھا اور وہیں پر ان کی تدفین کی تھی۔

جان سنوری کی اہلیہ نے اب کے ٹو پر اس سال گرمی میں مہمات کے دوران جانے والے کوہ پیماوٴں سے درخواست کی ہے کہ وہ جان سنوری کی لاش کی کوئی تصویر یا ویڈیو نہ لیں۔

انہوں نے لکھا ہے کہ ’ہمارے خاندان کے جذبات کی قدر کریں اور کوہ پیماوٴں سے میری درخواست ہے کہ جون سنوری کی لاش کی کوئی تصویر نہ لی جائے۔‘

یاد رہے کہ جان سنوری کی لاش کے ٹو کے ڈیتھ زون (کسی بھی پہاڑی کی آٹھ ہزار سے اوپر کے بلندی  کو ڈیٹھ زون سمجھا جاتا ہے کیوں کہ وہاں سے گزرنا انتہائی خطرناک ہوتا ہے) پر موجود ہے اور ساجد سدپارہ کے مطابق تینوں کوہ پیما سردیوں میں کے ٹو سر کرنے کے بعد واپسی پر پھنس گئے تھے۔

گذشتہ سال جب ساجد سدپارہ ریسکیو مشن پر گئے تھے تھے تو محمد علی سدپارہ اور جے پی موہر کی لاشیں کے ٹو کے ڈیٹھ زون پر موجود تھیں جنہیں کیمپ فور تک لایا گیا جبکہ جان سنوری کی لاش ذرا اوپر موجود تھی جس کو نیچے لانا مشکل تھا۔

سنوری کی اہلیہ نے ایک درخواست یہ بھی کی ہے کہ اگر کوہ پیما اس سال مہم پر جاتے ہیں اور اگر ممکن ہے تو سنوری کی لاش کی محمد علی سدپارہ اور ان کے دوست جے پی موہر کے قریب لائی جائے اور وہاں پر ان کی باقاعدہ تدفین کی جائے۔


لینا نے مزید لکھا ہے کہ ’پچھلے سال انہوں نے ساجد سدپارہ کو بتایا تھا کہ جان سنوری کی لاش کو وہیں پر چھوڑا جائے کیوں کہ مجھے اور خاندان کو سنوری کی موت کے غم نے نڈھال کردیا تھا اور اس وقت ہم اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ کسی کی مدد کی اپیل کو قبول کرتے اور ہمیں کچھ وقت چاہیے تھا تاکہ اس بارے میں ہم سوچ سکتے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے لکھا کہ ’اس سال نیپالی شرپا منگما جی نے مجھے بتایا ہے کہ اگر فیملی چاہتی ہے تو سنوری کی لاش کو علی سدپارہ اور جان موہر کے قریب لاسکتے ہیں۔

’منگما نے یہ بھی پیشکش کی ہے کہ اس کے بعد وہ حالات کو دیکھیں گے کہ اگر سنوری کی لاش وہاں سے نیچھے لائی جا سکتی ہے اور اس کے بعد ان کے وطن بھیجی جا سکتی ہے یا نہیں۔

’میں نے منگما کو اتنا کہا ہے کہ لاش اس صورت میں لائی جائے اگر وہ ان کے لیے اور دیگر کوہ پیماوٴں کے لیے محفوظ ہو۔‘

یاد رہے کہ نیپالی شرپا منگما ان شرپاوٴں میں شامل ہیں جنہوں نے گذشتہ سال پہلی مرتبہ کے ٹو کو سردیوں میں سر کیا تھا اور اس سال وہ گرمیوں میں بھی کے ٹو بیس کیمپ میں موجود تھے۔

منگما کا تعلق نیپال سے ہے اور ایک ٹور کمپنی بھی چلا رہے ہیں۔

کیا سنوری کی لاش کو نیچے لانا ممکن ہے؟

پاکستان میں کوہ پیمائی کے ادارے الپائن کلب آف پاکستان کے سیکریٹری کرار حیدری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جان سنوری پہاڑوں سے محبت کرنے والے اور پاکستان سے محبت کرنے والے کوہ پیما تھے اور یہی وجہ ہے کہ پہاڑوں کی محبت میں وہ جان سے گئے۔‘

انہوں نے بتایا کہ سنوری کی اہلیہ نے جو درخواست کی ہے وہ بالکل بجا ہے اور الپائن کلب کی بھی کوہ پیماوٴں سے یہی درخواست ہوگی کہ وہ اس سال مہم پر جاتے ہوئے سنوری کی لاش کی کوئی بھی تصویر یا ویڈیو نہ بنائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جان سنوری لاش جس جگہ موجود ہے وہ نہایت ہی خطرناک زون ہے اور وہاں سے کسی لاش کو نیچے لانا بہت مشکل ہے۔

عمران حيدر تھہیم پاکستان میں آٹھ ہزار سے بلند پہاڑی چوٹیوں کی مہمات پر گذشتہ 10 سالوں سے تحقیق کر رہے ہیں۔ ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ سنوری کی لاش کو نیچے لانا ممکن نہیں ہے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا سنوری کی لاش تقریبا 8400کی بلندی پر کے ٹو کی بوٹل نیک ( کے ٹو سر کرنے میں سب سے خطرناک زون) پر پڑی ہے اور وہاں سے اب تک کوئی بھی لاش نیچھے نہیں لائی گئی ہے تو سنوری کی لاش بھی نیچھے لانا ممکن نہیں ہے۔

تاہم عمران حيدر کہتے ہیں کہ ’ایسا ہو سکتا ہے کہ کوئی 10-12 نیپالی شرپاوٴں کی ٹیم بن جائے اور وہ مل کر لاش کو نیچھے لانے کی کوشش کریں لیکن وہ بھی مشکل ہے کیوں کہ اوپر لاش بالکل شیشہ بن جاتا ہے اور اس کے ٹوٹنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ یا تو شرپا اپنے ساتھ تابوت کے کر جائیں اور اس میں لاش  کو نیچے لے آئیں جو کہ ایک مشکل کام ہے۔‘

عمران حيدر نے بتایا کہ ’سنوری کی لاش چوں کہ کے ٹو جانے والی روٹ پر موجود ہے تو پہلے تو شاید ان کی لاش ایکسپوز نہ ہو لیکن گرمیوں میں اور ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے ممکن ہے کہ ان کی لاش کے اوپر سے برف ہوا کی وجہ سے اڑگئی ہو اور وہ نظر آرہی ہو۔‘

الپائن کلب کے کرار حیدری نے بتایا کہ جہاں پر سنوری کی لاش موجود ہے وہاں پر ہر ایک کوہ پیما خطرے سے لڑ رہا ہوتا ہے تو وہاں سے لاش نیچے لانا ممکن نہیں ہے۔

’میری تمام کوہ پیماوٴں سے یہی درخواست ہوگی کہ اگر ممکن ہے تو ان کی لاش کو روٹ سے ہٹا کر ایک ایسی جگہ پر لے جایا جائے جہاں کوہ پیماوٴں کا گزر کم ہو تاکہ ان کے خاندان والوں کو سکون مل سکے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان