اکڑ بکڑ بمبے بو اور سرفراز کے پورے 500

کچھ عرصہ پہلے تک اگلی ہوئی غلاظت سے دامن بچا کر مسکراتے ہوئے اپنا کام جاری رکھنا ممکن تھا۔ مگر اب نہیں۔

سرفراز احمد کی بے بنیاد خواہشات اور قوم کے خود ساختہ جیت کے نسخے تو ایک مثال ہیں جو اس تمام کیفیت کی عکاسی کرتی ہے جس میں یہ نظام مبتلا کر دیا گیا ہے (اے ایف پی)

اب معاملہ سوشل میڈیا پر گالم گلوچ، بدمزاجی، بےمغز اور بیہودہ الزام تراشی سے آگے نکل گیا ہے۔ تجزیہ اور تنقید کرنے والے صحافیوں کے خلاف مختلف اطراف سے کردار کشی کی مہم جوئی ایک باقاعدہ اور مہلک خطرے کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک اگلی ہوئی غلاظت سے دامن بچا کر مسکراتے ہوئے اپنا کام جاری رکھنا ممکن تھا، مگر اب نہیں۔

ملک دشمنی کے الزامات لگانے والے اب گردن زنی کا مطالبہ کرنے لگے ہیں۔ کیچڑ اچھالنے والے ناحق خون کے طلب گار ہیں۔ نام نہاد احتساب کے نام پر ملک بدر کرنے اور پھانسی گھاٹ بھجوانے کا اصرار کوئی مسخرہ پن نہیں۔ یہ وہ لٹکتی ہوئی تلوار ہے جو اپنی تمام تر زہر آلودگی کے ساتھ کسی وقت کسی پر بھی گرائی جا سکتی ہے۔

تنقیدی اور تجزیاتی صحافت کو پاکستان میں ہمیشہ سے خطرات درپیش رہے ہیں، لیکن ان خطرات کی مخالفت بھی جاندار اور کارگر رہی۔ جس کی وجہ سے آزادی رائے تمام تر مسائل کے باوجود سنسرشپ کے موذی اثرات سے کافی حد تک محفوظ رہی۔ اس بار حملہ مختلف نوعیت کا ہے۔ اب اپنی کوتاہیوں اور ناقص کارکردگی کی داستانیں فخریہ انداز سے بے مثال کارناموں کی صورت میں بیان کی جاتی ہیں۔ مصر ہیں کہ طوطا مینا کی یہ کہانیاں بطور سچ پیش کی جائیں اور اصل سچ کو جھوٹ کے طور پر لکھا اور بتایا جائے۔ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنانے کا یہ ڈھونگ ایک وبا کی طرح ہر طرف پھیلا دیا گیا ہے۔

اس کی بیمارانہ وسعت میں ہر شعبہ ہائے زندگی پھنس چکا ہے۔ ماضی میں اصل کا محاصرہ نقل کے ذریعے کیا جاتا تھا مگر اب نقل کو اصل بنا کر قوم کے سامنے روزانہ رکھا جاتا ہے۔ ہم میں سے جو بھی اپنی بساط کے مطابق قوم کی آنکھوں پر سے پٹی سرکانے کی کوشش کرتا ہے وہ فوراً مطعون ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے صرف گند نہیں پھینکا جاتا بلکہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ سرکاری بیانیے کو ہضم نہ کرنے والے دراصل ملک کے دشمن ہیں اور نظام میں ان کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس ’جرم‘ کی سزا محض زبان بندی نہیں بلکہ گلا گھونٹنا ہے۔

جھوٹ کے پلندوں کو کھولنے کی پاداش میں گردن زنی کی یہ جستجو اس لائحہ عمل کا حصہ ہے جس کے ذریعے موجودہ نظام چلایا جا رہا ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ پاکستان میں کہیں پر آپ کو بہترین اور بلند پائے کی تحقیقاتی صحافت ہوتی ہوئی نظر نہیں آ رہی۔ مگر اس کے باوجود یہ نظام اور اس کے چلانے والے اتنے غیر محفوظ ہیں کہ حقائق کی طرف ایک واجبی سا اشارہ ان کے سینوں میں برچھیوں کی طرح لگتا ہے۔ بااعتماد اور کارکردگی سے لیس ادارے اور افسران ہر آواز پر نہیں بدکتے۔ ان کے لیے یہ علم کہ وہ برحق اور با صلاحیت ہیں، تنقید کو خندا پیشانی سے برداشت کرنے کی بنیاد بنتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جو مضبوط پاؤں پر کھڑا ہے وہ بادِ مخالف سے کیوں کر گھبرائے گا؟ جو اندر سے چور نہیں اس کو اپنی نیک نامی کے چرچے کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ جس نے سفارشیں کروا کرعہدہ حاصل نہیں کیا وہ سڑیل بھینسے کی طرح قریب سے گزرنے والے ہر شخص کو ٹکریں کیوں مارے گا؟ جو دھوکے باز نہیں ہے وہ تنقید کے کٹہرے میں سینہ تان کر کیوں کر کھڑا نہیں ہو گا؟

بدقسمتی سے 2018 کے انتخابات سے لے کر اب تک جھوٹ اور فراڈ کی اینٹوں سے چنا ہوا یہ نظام غصے، نفرت اور اندرونی عدم تحفظ کا اس بری طرح شکار ہو چکا ہے کہ یہ اپنے سائے سے بھی خوفزدہ ہے۔

حقیقت کی ہر کرن اس کی موندی آنکھوں کو اس بری طرح چبھتی ہے کہ یہ ہر دوسرے لمحے باولا ہو کر بلبلانا شروع کر دیتا ہے۔ حقیقت گوئی سے اس جھوٹ کے مکان کے باسی اس وجہ سے متنفر ہیں کہ وہ آئینے میں اپنا چہرہ نہیں دیکھنا چاہتے۔ وہ ہر سوال پر خون آلود تلواروں کو اس وجہ سے بے نیام کرتے ہیں کہ ان کے پاس نہ اخلاقی جواز ہے نہ جرات۔ وہ تمام بستی کو اپنے رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں تاکہ کوئی ان کی طرف انگلی نہ اٹھا سکے۔ وہ ہر ایسے باسی کو شہر بدر کرنا چاہتے ہیں جو دروغ گوئی سے سجے ہوئے بازاروں میں بادشاہ سلامت کے گزرتے قافلے کے سامنے کھڑا ہو کر یہ آواز لگائے کہ ’اس کے سر پر تاج تو ہے مگر تن لباس سے عاری ہے۔‘

چاہے اس کا تعلق سیاست سے ہو یا معیشت سے، جھوٹے بیانیے کو جاری رکھنے کے لیے محض دھونس دھمکی اور کردار کشی کافی نہیں ہے۔ اس کے لیے قوم کو مسلسل گمراہ کرنے کی کاوش کی اشد ضرورت ہے۔ یہ ضرورت اسی صورت میں پوری ہو سکتی ہے جب قوم ادھر ادھر نہ دیکھے اور اندھیروں کو اجالے سمجھ کر بھاگنے میں مصروف رہے۔ اس گھوڑے کی طرح جو اپنی آنکھوں پر ڈلی ہوئی اندھیری کے باعث اطراف سے غافل کوچوان کی لگام کے تابع کوڑے کھاتا ہوا خاموشی سے سفر طے کرتا رہتا ہے۔ اس سے بھی کہیں ضروری جھوٹے دلاسے اور طفل تسلیاں ہیں جن پر انحصار کو قومی کردار کا ایک حصہ بنا دیا گیا ہے۔ لہذا عقل و فہم کے مخالف اول فول بکنا اب وطیرہ بن گیا ہے۔ مہملات پر مبنی اعداد و شمار کھوکھلے خوابوں کی ترویج کے لیے بے دریغ استعمال کیے جا رہے ہیں۔

قوم کی ذہنی کیفیت اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ اکڑ بکڑ بمبے بو سے روزانہ پورا سو بناتی ہے۔ سرفراز احمد نے تو بنگلہ دیش کے خلاف میچ سے پہلے 500 سو بنا دیے۔ ہر دوسرا شخص اس احمقانہ دعوے پر جمع تفریق کرنے میں مصروف ہو گیا کہ جیسے کوئی کرشمہ سائنسی انداز سے ہماری لڑھکتی بھٹکتی قسمت کو تبدیل کر کے ہمیں سیمی فائنل میں پہنچا دے گا۔ ہمارے ورلڈ کپ جیتنے کے سائنسی فارمولے بالکل ویسے ہی تھے جیسے آتش دان کے گرد بیٹھ کر ناامیدی سے بچنے کے لیے کوئی بزرگ یہ کہہ رہا ہو کہ اگر فرحانہ دوبارہ سے زندہ ہو جائے یا نسرین کو طلاق ہو جائے یا ثمرین کا شوہر مر جائے تو مٹھو کی شادی ہو سکتی ہے۔

سرفراز احمد کی بے بنیاد خواہشات اور قوم کے خود ساختہ جیت کے نسخے تو ایک مثال ہیں جو اس تمام کیفیت کی عکاسی کرتی ہے جس میں یہ نظام مبتلا کر دیا گیا ہے۔ کبھی ہم سمندر سے تیل نکال کر ہوائی قلعے بناتے ہیں اور کبھی انڈوں، مرغیوں، بھینسوں، کٹوں اور گدھوں سے معیشت کو سدھارنے کے خواب چننے لگتے ہیں۔ کبھی مدینہ کی ریاست کو سوشلسٹ چائنہ کے ساتھ ملا دیتے ہیں اور کبھی برطانیہ جیسی لادین آئینی ریاست کو اسلامی مملکت کا عکس قرار دے دیتے ہیں۔ بدترین معاشی حقائق جو دنیا کے ہر معیشت دان اور مہنگائی سے کچلے ہوئے ہر پاکستانی پر عیاں ہیں ہمارے لیے مثبت سمت کے سنگ میل بن چکے ہیں۔

ہم قانون اور آئین سے کھلواڑ کو احتساب، کچلی جمہوریت کو نئے آغاز اور بدترین فراڈ کو عظیم ترین کردار کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ اس ملک کا نظام ہائی جیک ہو چکا ہے۔ یہ جھوٹ کا دور ہے۔ یہاں جھوٹے پیغمبر ایک گمراہ امت بنانے میں دیدہ دلیری سے مصروف ہیں جہاں سچ گوئی ناقابل برداشت ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر