لاہور: تشدد سے ہلاک ہونے والے کمسن ملازم کے والد پر مقدمہ درج

پولیس کے مطابق اس سے قبل مقتول کی دوسری بہن کو ڈیرہ اسماعیل خان سے برآمد کرلیا گیا جبکہ بچے کے والد کے خلاف مقدمہ ’ٹریفکنگ ان پرسن‘ کے تحت درج کیا گیا۔

پولیس کے مطابق اس وقت تینوں بچے، جن میں رضوان اور ان کی دونوں بہنیں شامل ہیں، چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفئیر بیورو کے پاس ہیں۔(تصویر: لاہور پولیس انویسٹی گیشن ونگ)

لاہور کے علاقے ڈفینس میں عید کے دوسرے روز مبینہ طور پر گھریلو تشدد سے ہلاک ہونے والے کامران کے کیس میں پولیس نے بچے کے والد کو انسانی ’سمگلنگ‘ کے الزام میں گرفتار کرلیا۔

پولیس کے مطابق اس سے قبل مقتول کی دوسری بہن کو ڈیرہ اسماعیل خان سے برآمد کرلیا گیا جبکہ بچے کے والد کے خلاف مقدمہ ’ٹریفکنگ ان پرسن‘ کے تحت درج کیا گیا۔

ڈی آئی جی انویسٹیگیشن لاہور کامران عادل نے اس کیس کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پولیس نے مقتول بچے کامران کی ایک اور بہن کو قتل کے مرکزی ملزم ابوالحسن نے اپنی ہمشیرہ کے گھر کام کاج کے لیے رکھوایا ہوا تھا۔

 ابوالحسن نے دو بھائی اپنی والدہ کے گھر رکھوائے ہوئے تھے ایک بہن اپنی ہمشیرہ کے گھر جبکہ چھوٹی سات سالہ بچی کو اپنے پاس رکھا ہوا تھا جس سے وہ مبینہ طور پر شادی کرنے والا تھا۔

کامران عادل نے بتایا: ’مقتول بچے کے پوسٹ مارٹم اور فرانزک کی رپورٹ کا انتظار ہے جبکہ مرکزی ملزم سے برآمد ہونے والی بچی کا میڈی کولیگل کروایا ہے جس میں بظاہر کوئی جنسی استحصال کے شواہد نہیں ملے لیکن ہم نے ڈاکٹروں سے کہا ہے کہ وہ یہ رپورٹ ایک بورڈ بنا کر ہمیں تحریری طور پر دیں کہ بچی کے ساتھ کوئی جنسی زیادتی نہیں ہوئی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ اس وقت تینوں بچے، جن میں رضوان اور ان کی دونوں بہنیں شامل ہیں، چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفئیر بیورو پہنچ چکے ہیں۔ 

ڈی آئی جی انویسٹی گیشن کامران عادل نے یہ بھی بتایا کہ ان بچوں کے والد کراچی سے لاہور پہنچ گئے تھے اور ان کے  خلاف پولیس کی مدعیت میں 'ٹریفکنگ ان پرسن' کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ٹریفکنگ ان پرسن نیا قانون ہے جو ناقابل ضمانت بھی ہے اور اس میں سات سال کی سزا ہے۔ 

پولیس نے مقتول کامران کے والد عرفان کے خلاف  ’پریوینشن آف ٹریفکنگ ان پرسن ایکٹ 2018-3‘ اور ’پریوینشن آف ٹریفکنگ ان پرسن 2018- 4‘ کے تحت اپنی مدعیت میں تھانہ ڈفینس اے میں مقدمہ درج کیا ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق دوران تفتیش یہ بات سامنے آئی کہ محمد عرفان نے لاہور آ کر اپنے چار کمسن و نابالغ بچوں کو جبری مشقت کے لیے ملزم کے گھر پر ماہانہ 40000 روپے پر رکھوایا۔

یہ بچے ڈھائی سال پہلے عرفان نے ملزمان کے گھر پر کام کاج کے لیے رکھوائے۔

یہ بھی کہا گیا کہ ملزمان نے بچوں سے زبردستی گھریلو کام لینا شروع کر دیا اور ان کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔ جبکہ بچوں کو شدید جسمانی و ذہنی تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا۔ جبکہ ان بچوں کی ایک بہن کو ملزم ابوالحسن نے ڈیرہ اسماعیل خان ایک گھر میں کام کاج کے لیے رکھوایا۔ 

ایف آئی آر میں مزید یہ بھی لکھا گیا کہ 11 جولائی کو نابالغ کامران کی موت واقع ہو گئی جبکہ رضوان پر شدید جسمانی تشدد کیا گیا ۔ 

11 سالہ کامران کی موت عید کے دوسرے روز مبینہ گھریلو تشدد کے سبب ہوئی جبکہ پولیس کو ایک نجی ہسپتال کی جانب سے 15 پر کال موصول ہوئی جب کامران کی زخمی لاش کو گھر کے مالکان نے ہسپتال پہنچایا تھا۔

ملزمان کے ابتدائی بیان کے مطابق دونوں بچوں نے فریج سے  کھانا ’چوری‘ کر کے کھایا جس پر انہیں مارا گیا۔ 

ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور کامران عادل نے بتایا تھا کہ اس کیس میں ملوث پانچ سے زائد افراد پولیس کی حراست میں ہیں جبکہ کامران کے مبینہ  قتل کا مرکزی ملزم ابوالحسن بھی چند روز قبل بہاولپور سے گرفتار کر لیا گیا تھا جس کے قبضے سے سات سالہ بچی برآمد ہوئی تھی جو مقتول کامران کی بہن تھی اور قاتل اس سے شادی کا منصوبہ بنا رہا تھا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پولیس کے مطابق: ’بچوں کے والد عرفان محنت مزدوری کرتے تھے اور کراچی میں رہتے تھے۔ عرفان مرکزی ملزم ابوالحسن کے مرید بھی تھے اور یہ بھی خیال کیا جارہا تھا کہ عرفان نے اپنے چاروں بچوں کو ابوالحسن اور ان کے خاندان کی خدمت کے لیے ان کے گھر بھجوایا ہوا تھا۔  ‘

گھریلو ملازمین سے متعلق قانون

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایڈووکیٹ احمر مجید نے اس حوالے سے انڈپینڈںٹ اردو کو بتایا کہ ’پنجاب میں ڈومیسٹک ورکر ایکٹ 2019 موجود ہے اس کا سیکشن تین کہتا ہے کہ 15 سال سے کم عمر کوئی بھی بچہ گھریلو ملازم کے طور پر کسی بھی صورت کام نہیں کر سکتا۔ 15 سے 18 سال کی عمر کے کسی بچے کو اگر رکھا جائے گا تو وہ صرف ہلکا پھلکا کام کر سکتا ہے۔‘

ان کے مطابق: ’ہلکے پھلکے کام کی تعریف یہ ہے کہ وہ پارٹ ٹائم ہوگا اور بچے کی صحت، حفاظت اور پڑھائی اس کام سے متاثر نہ ہو۔ اسی طرح پنجاب ڈومیسٹک ورکر ایکٹ 2019 کے سیکشن 31 میں سزائیں بیان کی گئی ہیں کہ اگر کوئی 15 سال سے 18 سال کے بچے کو بطور گھریلو ملازم رکھے گا تو اسے کیا سزا ہو گی یا اگر بچہ 12 سے 15 سال کا ہے یا 12 سال سے کم عمر کا بچہ ہے تو کیا صورت حال ہوگی۔‘

ان سیکشز کے تحت ملزمان کو قید کی سزا کے ساتھ جرمانہ بھی ادا کرنا ہوگا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان