بھارت: خشک زمینوں کو سیراب کرتی ’جل سہیلیاں‘

اگروتھا ان 300 سے زیادہ دیہاتوں میں سے ایک ہیں جہاں خواتین نئے آبی ذخائر اور آبی گزرگاہوں کی بحالی کے منصوبے بنا رہی ہیں۔

حالیہ سیزن میں مون سون یا ساون کی برسات خطے میں خوب برس رہی ہیں جس کے بعد بھارت میں خواتین کے ایک گروپ کو امید ہے کہ ان کی برسوں کی محنت کے بعد اب ان کا گاؤں کبھی خشک سالی کا شکار نہیں ہو گا۔

بھارت جو دنیا کا دوسرا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے اپنے 1.4 ارب عوام کی پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔

یہ مسئلہ بگڑتا جا رہا ہے کیونکہ ماحولیاتی تبدیلی نے خطے کے موسم کو مزید غیر متوقع بنا دیا ہے۔

آگرہ میں تاج محل کے جنوب میں واقع بندیل کھنڈ نامی ایک گاؤں کو بھی یہی مشکل درپیش ہے جہاں پانی کی کمی نے مایوس کسانوں کو اپنی زمینیں چھوڑنے اور شہروں میں مزدوری کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔

ببیتا راجپوت نامی خاتون نے خبررساں ادارے اے ایف پی کو گاؤں کے قریب سے گزرنے والی ایک خشک ندی کے کنارے بیٹھے ہوئے بتایا: ’ہمارے بزرگ کہتے ہیں کہ اس ندی میں سال بھر پانی موجود ہوتا تھا لیکن اب یہاں ایک قطرہ بھی نہیں ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمارے علاقے میں پانی کا بحران ہے۔ ہمارے سارے کنویں سوکھ چکے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تین سال پہلے ببیتا راجپوت نے جل سہیلی (پانی کی دوست) نامی خواتین کے ایک گروپ میں شمولیت اختیار کی جو اب تقریباً ایک ہزار خواتین کا رضاکاروں کا نیٹ ورک بن چکا ہے اور بندل کھنڈ میں پانی کے ذرائع کی بحالی کے لیے کام کر رہی ہیں۔

وہ برسوں سے ایک ساتھ مل کر پتھروں کو اٹھاتی اور ایک ڈیم کی تعمیر کے اس کے تالاب اور پشتے بناتی رہی ہیں تاکہ مون سون کی برساتوں میں یہ بھر جائے۔

اگروتھا ان 300 سے زیادہ دیہاتوں میں سے ایک ہیں جہاں خواتین نئے آبی ذخائر اور آبی گزرگاہوں کی بحالی کے منصوبے بنا رہی ہیں۔

ببیتا راجپوت نے کہا کہ ان کی محنت نے مون سون کی بارشوں کے پانی کو زیادہ دیر تک ذخیرہ رکھنے اور ان کے گاؤں کے ارد گرد نصف درجن آبی ذخائر کو بحال کرنے میں مدد کی ہے۔

اگرچہ ابھی تک یہ گاؤں پانی کے حوالے سے مکمل خود کفیل نہیں ہے لیکن اگروتھا کے رہائشی اب ان 60 کروڑ بھارتیوں میں شامل نہیں ہیں جن کے بارے میں ایک سرکاری تھنک ٹینک کا کہنا ہے کہ انہیں روزانہ پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

خواتین کی اس کوششں نے امید کی ایک کرن فراہم کی ہے کیونکہ پانی کی قلت روز بروز بڑھ رہی ہے۔

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں پانی کی سہولیات گرمیوں میں طلب کو پورا کرنے میں ناکام رہتی ہیں ٹینکرز باقاعدگی سے دہلی کی کچی آبادیوں میں سفر کرتے ہیں تاکہ رہائشیوں کو پانی فراہم کیا جا سکے۔

بھارت کے ادارے ’نیتی آیوگ پبلک پالیسی سینٹر‘ نے پیش گوئی کی ہے کہ ملک کی تقریباً 40 فیصد آبادی اس دہائی کے آخر تک پینے کے پانی تک رسائی سے محروم ہو سکتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات