پاکستان کی عسکری تاریخ کے بڑے فضائی حادثات

فضائی حادثات کے پیچھے بہت سی وجوہات ہوتی ہیں جس میں تکنیکی خرابی، موسم، انسانی غلطی اور کبھی اچانک حملے کی وجہ سے بھی حادثہ رونما ہوجاتا ہے، اس کے علاوہ کبھی گولی اور پرندے بھی کریش کا باعث بن جاتے ہیں۔

10 دسمبر 2019 کی اس تصویر میں راولپنڈی کرکٹ سٹیڈیم کے اوپر پرواز کرتا پاکستانی فوج کا ہیلی کاپٹر(اے ایف پی فائل)

پاکستان کی عسکری تاریخ میں کئی بڑے فضائی حادثات پیش آئے ہیں جن میں اعلی عہدوں پر فائز قومی اور غیر ملکی شخصیات کا جانی نقصان ہوا ہے۔

ان اعلی شخصیات کے علاوہ بھی زیرتربیت اور مختلف مہمات پر جانے والے ہیلی کاپٹروں اور جہازوں کے حادثات بھی ہوئے ہیں جن میں پائلٹس اور عملے کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑ۔

فضائی حادثات کے پیچھے بہت سی وجوہات ہوتی ہیں جس میں تکنیکی خرابی، موسم، انسانی غلطی اور کبھی اچانک حملے کی وجہ سے بھی حادثہ رونما ہوجاتا ہے۔ 

اس کے علاوہ کبھی گولی اور پرندوں کا طیاروں اور ہیلی کاپٹرز سے ٹکرا جانا بھی کریش کا باعث بن جاتا ہے۔

ضیا الحق کے طیارے کو حادثہ

اگر ہم گذشتہ تین دہائیوں کو دیکھیں تو 1980 کی دہائی کے آخر میں پاکستان فوج کے سربراہ اور اس وقت کے صدر جنرل ضیا الحق کا طیارہ سی ون تھرٹی کریش کرگیا تھا۔ اس طیارے میں صدر ضیاالحق سمیت امریکی سفیر آرنلڈ لوئس، جوائنٹ چیف اخترعبدالرحمن اور دیگر افراد سوار تھے۔  سی ون تھرٹی ایک محفوظ طیارہ سمجھا جاتا ہے اور اس کو مال برداری اور امدادی سرگرمیوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔

سانحہ بھاولپور

سانحہ بہالپور آج بھی ایک معمہ ہے۔ اس حادثے میں بھی سی ون تھرٹی اور قیمتی جانوں کا نقصان ہوا تھا۔ ہرکولیس نامی طیارے میں 30 افراد سوارتھے جن میں 17 مسافر تھے اور 13 عملے کے ارکان تھے۔ اس حادثے میں طیارے پر سوار کوئی شخص زندہ نہیں بچ سکا تھا۔

مصحف علی میر کے طیارے کو حادثے

2003 میں پیش آنے والے فضائی حادثے میں پاکستان فضائیہ کو اپنے سربراہ کا جانی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ پاکستانی فضائیہ کے سربراہ مصحف علی میر کوہاٹ میں طیارے کو پیش آنے والے حادثے کی وجہ سے چل بسے۔ وہ ائیر فورس کے فوکر ایف 27 ایئر کرافٹ میں سوار تھے۔ ان کے ساتھ ان کی اہلیہ اور 15 دیگر افسران بھی سوار تھے۔ ان کا جہاز کوہاٹ میں کریش کرگیا کوئی بھی اس حادثے میں زندہ نہیں بچ سکا تھا۔

جنرل راشد قریشی طیارہ حادثے میں بچ گئے

جنرل راشد قریشی جنرل پرویز مشرف کے دور میں پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ تھے۔ ان کے ہیلی کاپٹر کو2007 میں حادثہ پیش آیا تھا اور وہ اس میں زخمی ہوگئے تھے۔ اس حادثے میں ہیلی کاپٹر پر سوار آٹھ افراد زخمی بھی ہوئے اور دو فوجی اہلکاروں سمیت چار افراد جان سے گئے تھے۔ یہ روسی ساختہ ایم آئی 17 ہیلی کاپٹر تھا جس کو کشمیر میں حادثہ پیش آیا تھا۔ عینی شاہدین کے مطابق کچھ لوگ اس لیے بچ گئے تھے کیوں کہ انہوں نے ہیلی کاپٹر کے کریش ہونے سے قبل چھلانگ لگا دی تھی۔

نلتر میں سفیروں کے ہیلی کا حادثہ

اگر ہم ماضی قریب میں دیکھیں تو 2015 میں نلتر میں سفارت کاروں کو لے جانے والے ہیلی کاپٹر کو حادثہ پیش آیا تھا۔ یہ پاکستان آرمی کا ایم آئی 17 ہیلی کاپٹر تھا۔ اس حادثے میں دو پائلٹس میجر التمش اور میجر فیصل سمیت فلپائن کے سفیر، ناروے کے سفیر، انڈونیشا اور ملائشیا کے سفیروں کی بیگمات کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔ اس ہیلی کاپٹر پر 11 غیر ملکی اور چھ پاکستانی شہری سوار تھے۔ بعد ازاں انڈونیشی سفیر بھی زخموں کی تاب نا لاتے ہوئے چل بسے تھے۔ یہ ہیلی فنی خرابی کا شکار ہوا اور بے قابو ہو کر اے پی ایس کی دیوار سے ٹکرا گیا اور اس میں آگ لگ گئی تھی۔

کور کمانڈر کوئٹہ کے ہیلی کاپٹر کو حادثہ

اب یکم اگست 2022 کو بلوچستان میں موسی گوٹھ، وندر، لسبیلہ کے مقام پر پاکستان فوج کے سکواڈرن نمبر سات کے ایکریول ہیلی کاپٹر کو حادثہ پیش آیا ہے اور اس میں کور کمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی سمیت چھ اہلکار چل بسے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق ان کے ہیلی کاپٹر کو خراب موسم کے باعث حادثہ پیش آیا۔ کورکمانڈر سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں کا جائزہ لے رہے تھے اور امدادی سرگرمیوں میں مصروف تھے۔ پاکستان آرمی ایوی ایشن کا یوروکاپٹر اے ایس 350 ایکریول ہیلی نے چھ بجے فیصل بیس کراچی پر لینڈ کرنا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا اور آئی ایس پی آر نے یکم اگست کو ہی اس بات کا اعلان کیا کہ ہیلی کاپٹر لاپتہ ہوگیا ہے۔

اس حوالے سے متعدد خبریں چل رہی تھیں لیکن دو اگست کو اس کریش کے حوالے سے سب کو مطلع کیا گیا کہ ہیلی کاپٹر پر سوار افراد میں سے کوئی بھی زندہ نہیں رہا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کریش کے پیچھے بہت سے عوامل ہوتے ہیں اس میں موسم کی خرابی، تکنیکی معاملات شامل ہوتے ہیں۔ ابر آلود موسم اور دھند کی وجہ سے پہاڑوں سے جہاز اور ہیلی ٹکرا جاتے ہیں۔

ڈاکٹر راشد ہوا بازی کے امور کے ماہر ہیں وہ کہتے ہیں کہ ’نو ماہ کے اندر تین حادثے ہوئے ہیں جس میں آرمی ایوی ایشن کے اہلکار ’شہید‘ ہوئے۔

’اس میں سے ایک کریش سیاچن میں ہوا، کانگو میں آرمی ایوی ایشن کے اہکاروں پر حملہ ہوا جو وہاں امن مشن پر موجود تھے اور بلوچستان میں کل ہونے والا کریش، یہ ایسے واقعات ہیں جو ایک سال کے اندر آرمی ایوی ایشن کے ساتھ پیش آئے۔‘

 ماہرین کہتے ہیں کچھ حادثات میں انسانی غلطی ہوتی کچھ میں فنی خرابی شامل ہوتی ہے۔

ڈاکٹر راشد کہتے ہیں کہ ’میری ریسرچ کے مطابق حالیہ کچھ سالوں میں اب تک آٹھ ہیلی اور ایک فکسڈ ونگ کو حادثات پیش آئے ہیں جس میں زیادہ تر روسی ساختہ ہیلی کاپٹر ایم آئی 17 تھے۔ ایوی ایشن میں کچھ جہاز اور ہیلی ٹرینگ میں ہوتے ہیں تو کچھ فلائٹس اور آپریشنل مقاصد میں استعمال ہوتے ہیں۔‘

ماہرین کی رائے

ماہرین ہوا بازی کے مطابق ہیلی کاپٹر بہت پیچیدہ ہوتے ہیں ان کی دیکھ بھال بہت توجہ طلب اور مشکل کام ہے۔ ان کے مطابق اگر ملٹری ایوی ایشن کے جہاز اور ہیلی عمر رسیدہ اور پرانے ہوگئے ہیں تو ان کو فوری طور پر نئے سے تبدیل کرنا ہوگا۔

اس کے علاوہ ملٹری ایوی ایشن کو پائلٹس اور ٹیکنیکل عملے کی استعداد کار کی طرف دیکھنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ہر طیارے اور ہیلی کا ٹیکنیکل لاگ اس کی ہسٹری کا معائنہ کرنا ضروری ہے تاکہ حادثات کا تدارک ہوسکے۔

جس ہیلی کاپٹر کو حادثہ پیش آیا وہ آرمی ایوی ایشن کے اسکواڈرن سات سے تعلق رکھتا تھا اور فرانسیسی ساختہ ہے۔ یہ اونچے پہاڑی علاقوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس فلیٹ کو لاما ہیلی کے متبادل کے طور پر لایا گیا تھا۔

یہ ایک ہیلی قدرے محفوظ سمجھا جاتا ہے اور امدادی کاموں میں بھی اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ سکواڈرن نمبر سات کراچی میں قائم ہے اور فرانسسی ساخت کا ایکریول ہیلی اس کا کلیدی حصہ ہے۔

پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کا کہنا ہے کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق ہیلی کو حادثہ خراب موسم کی وجہ سے آیا۔ جو دو پائلٹس اس ہیلی کو اڑا رہے تھے ان کے واقف کاروں کے مطابق میجر سعید اور میجر طلحہ دونوں بہترین پائلٹس میں شمار ہوتے تھے۔

حادثے کی صورت میں طیارے اور ہیلی تو دوبارہ خریدے جا سکتے ہیں لیکن پائلٹس اور مسافر کبھی واپس نہیں آسکتے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان