سو سال بعد انسان کی اوسط عمر ڈھائی سو سال ہو گی؟

بڑھاپا رک جائے گا، بیماری رک جائے گی ۔۔۔ مرنے کا امکان ہو گا تو صرف حادثاتی موت! اور یہ سب دور نہیں ہے، بس کوئی سو یا سوا سو سال۔

فرانس، 21 جنوری 2021 کو پاسچر انسٹیٹیوٹ کی لیبارٹری میں ہونے والا کام (تصویر: اے ایف پی)

سوچیں کہ موت آپ سے بہت دور ہو جائے؟ چلیں حادثے وغیرہ میں تو مرنے کی آپشن ہو لیکن آپ بوڑھے ہوں اور نہ ہی کوئی بیماری آپ کو ختم کر سکے۔

انسانوں کی عمریں دو سو، ڈھائی سو سال ہو جائیں لیکن سارے چاق و چوبند چست گھومتے پھرتے نظر آئیں؟

سائنس کی دنیا میں دو چیزیں ابھی پچھلے ایک ہفتے کے دوران ایسی ہوئی ہیں جن کے بعد لوگوں کا دماغ اس طرف لگ گیا ہے۔

پہلی چیز تھی ریچھ کے خون سے انسانی مسلز کی تیزی سے گروتھ اور دوسری اہم ڈویلپمنٹ تھی مرنے کے بعد ایک سور کے اعضا کو دوبارہ متحرک کرنا۔

سور والے کیس میں تو یہ ہوا کہ ریسرچ کرنے والوں نے پہلے سوروں کو مصنوعی طریقے سے ہلاک کیا، جیسا لیبارٹریوں میں جانور تجربے کے لیے مارے جاتے ہیں، آف کورس ویسے ہی۔ اس کے ایک گھنٹے بعد انہوں نے مرے ہوئے سوروں کو OrganEx (آرگن ایکس) نامی سسٹم سے جوڑ دیا۔

آرگن ایکس کو ایک ایسی مشین سمجھ لیں جو ان جانوروں کے دماغ میں خون پہنچا رہی تھی۔ فرق یہ تھا کہ آرگن ایکس والے خون میں تیرہ دوائیاں مزید شامل تھں۔ اب سمجھنے کی بات ہے۔

ان مرے ہوئے جانوروں میں، جن کی نبض ایک گھنٹہ پہلے رک چکی تھی، یہ آرگن ایکس والا خون ملنے کے بعد، جسم کے اندر موجود سسٹم کام کرنا شروع ہو گئے۔ مرنے کے بعد جسم کا جو گلنا سڑنا ہوتا ہے، وہ نہ صرف رک گیا بلکہ دل کی دھڑکن سمیت جگر اور گردوں نے بھی حرکت کرنا شروع کر دیا۔ جسم کے تمام حصوں تک آکسیجن پہنچنا شروع ہو گئی۔ ان کے سر اور گردن میں حرکت بھی دیکھی گئی۔  

آرگن ایکس سے دماغ کی ریکوری نسبتاً کم ہوئی۔ کچھ ٹشوز نے کام کرنا شروع کر دیا، دوسرے مردہ رہے۔

تجربے میں شامل ایک ریسرچر ’نیتا فرحانے‘ کے مطابق ’اگر خلیوں (سیل) کی بحالی والے ان نتائج کو دوسرے جانوروں اور پھر انسانوں پر استعمال کیا جاتا ہے تو مستقبل کے انسان کی لمبی عمر کے لیے یہ چیزیں اتنی ہی اہم ہو سکتی ہیں جتنا آج کل سی پی آر اور وینٹی لیٹر کو سمجھا جاتا ہے۔‘

اس تجربے کا مقصد ریسرچ کرنے والوں کے الفاظ میں یہ تھا ’موت ایک لمحہ نہیں بلکہ یہ ایک عمل ہے۔ موت کی قانونی تعریف میڈیکل کے شعبے میں ترقی کے ساتھ بدلتی رہے گی۔‘

اب آ جائیں اس معاملے کی طرف جس میں ریچھ کے خون سے انسانی مسلز کی تیزی سے گروتھ کا تجربہ ہوا تھا۔ گروتھ مطلب ’بڑھوتری‘ – اردو چاہیے تو یہ لفظ برداشت کریں!

ہوا یوں کہ سائنس دان اس چیز کے بارے میں پریشان تھے کہ ریچھ پوری سردیاں سوئے کیسے پڑے رہتے ہیں؟ انسان کا جسم مہینے بھر بھی حرکت میں نہ ہو تو اس کے مسلز کمزور ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور بالاخر وہ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں، بلکہ شوگر، موٹاپہ یہاں تک کہ موت واقع ہو سکتی ہے۔ ریچھ کیسے تین چار مہینے (Hibernation) ہائبرنیشن کے بعد بھی فٹ فاٹ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں؟  حساب لگایا تو پتہ چلا کہ ریچھوں میں خون کے اندر کچھ ایسے کیمیکل ہوتے ہیں جو ان کے مسلز کو مہینوں (بعض اوقات سات ماہ تک!) سونے کے دوران بھی خراب نہیں ہونے دیتے۔  

ریچھ کے خون میں پائے جانے والے یہ کیمیکل کیا تھے، انہیں اب تک الگ سے پہچانا نہیں جا سکا لیکن انسانی جسم میں ڈالنے پر وہ کس جگہ اثر انداز ہوتے ہیں، یہ پتہ لگا لیا گیا۔

کیسے پتہ لگایا گیا، ایسے ۔۔۔ ریچھ کا خون لیا، اس سے سیرم بنایا۔ رکیں ۔۔۔ اب سیرم کیا ہے؟ خون کا سیمپل لیا، اسے جمنے دیا، مشین میں ڈالا، گھمایا ۔۔۔ جمنے والے اجزا نکال دیے، باقی جو کچھ ملا آسان ترین زبان میں اسے سیرم سمجھ لیں۔

وہ سیرم لیبارٹری میں انسانی مسلز کے اندر ڈال کر ان پر تجربہ کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ 24 گھنٹے میں ان مسلز کے اندر غیر معمولی گروتھ دیکھی گئی۔

اب کچھ انسانی مسلز میں انہوں نے ریچھ کے اس خون کا سیرم ڈالا جن دنوں ریچھ فُل حرکت میں ہوتا ہے، سو نہیں رہا ہوتا، وہ مسلز ویسے کے ویسے رہے، ان میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھی گئی۔

تو نتیجہ یہ نکالا گیا کہ انسانی جسم میں ایک جین ایسا ہے جہاں ریچھ کے ہائبرنیشن خون والے کیمیکل جا کے اثر انداز ہوئے اور انہوں نے انسانی مسلز کے کمزور یا ضائع ہونے کا عمل نہ صرف روک دیا بلکہ انہیں اضافی پروٹین بھی دی ۔ وہ جین ہے فوکس او تھری اے (FOXO3a)۔

فوکس او تھری اے کے ساتھ اب آرگن ایکس سسٹم کو ملا کر دیکھیں، بات سمجھ آتی ہے؟ یہ دونوں تجربے پچھلے دو تین ہفتوں کے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2016 میں ایک صاحب تھے ڈاکٹر جان وگ (Jan Vijg)، انہوں نے کہا کہ انسانی جسم کی زیادہ سے زیادہ عمر 115 سال ہو سکتی ہے اگر وہ بیماریوں یا حادثات کا شکار نہ ہو۔

اب 2021 ہے۔ ان چھ برس میں فوکس او تھری اے نامی جین پر اتنا کام ہو چکا ہے کہ مستقبل میں کینسر، شوگر، الزائیمر سمیت ہر بیماری کی ماں، بڑھاپے، سے نمٹنے کے لیے سائنس دان مستقل اس جین پر کام کر رہے ہیں۔

1900 میں ادھر ایشیا کے انسان کی اوسط عمر 28 سال تھی۔ 1950 میں یہی ایوریج 42 سال پر پہنچ گئی۔ 2019 میں ایشیائی انسان کی اوسط عمر 74 سال ریکارڈ کی گئی۔ 

اب سوچیں کہ اسی حساب سے اگلے سو برس بعد انسان کی اوسط عمر کیا ہو گی؟ اگر 120 سال میں انسان 28 سال سے تین گنا زیادہ جینے لگا ہے، یعنی 74 سال، تو کیا اگلے سو سال میں یہ مزید تین گنا نہیں ہو سکتا؟ یعنی وہی کوئی دو ڈھائی سو برس کی عمر؟ ابھی یہ چیز بھی دماغ میں رکھیں کہ میڈیکل سائنس میں ترقی اس وقت 1900 کے مقابلے میں شاید لاکھوں گنا تیز ہو رہی ہے۔ تو آخر ہو گا کیا؟

ہو گا یہ کہ بڑھاپا رک جائے گا، بیماری رک جائے گی ۔۔۔ مرنے کا امکان ہو گا تو صرف حادثاتی موت! اور یہ سب دور نہیں ہے، بس کوئی سو یا سوا سو سال اور FOXO3a ٹائپ کی جینز پہ تھوڑا مزید کام!

اس وقت ہم نہیں ہوں گے۔ ہمارے بچوں کے بچوں کے بچے وہ لوگ ہوں گے جن کی اوسط عمر دو ڈھائی سو سال ہو گی۔ لیکن 1914 میں ہمارے پردادوں نے سوچا ہو گا کہ ہماری اوسط عمریں 74 سال تک پہنچ جائیں گی؟

رب دیاں رب ای جانے!

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ