’ہم سب زومبی ہیں‘

جب زندہ انسانوں اور مُردوں میں فرق اتنا دھندلا ہو جائے تو زومبی فلمیں مایوسی کی وجہ بن جاتی ہیں۔ یہ طنزیہ یا ڈراؤنی فلم کے طور پر کسی کام کی نہیں رہتیں۔

’آئی والکڈ وِد آ زومبی‘  کا ایک منظر

جم جرموش کی نئی فلم ’دی ڈید ڈونٹ ڈائی‘ کے مطابق اب ہم سب زومبیز ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ زومبیز کے موضوع پر بنائی جانے والی فلموں کی عدم مقصدیت کو بھی ثابت کرتی ہے۔

جب زندہ انسانوں اور مُردوں میں فرق اتنا دھندلا ہو جائے تو زومبی فلمیں مایوسی کی وجہ بن جاتی ہیں۔ یہ طنزیہ یا ڈراؤنی فلم کے طور پر کسی کام کی نہیں رہتیں۔ حالیہ چند سالوں میں ہم نے ایسی بہت سی فلمیں دیکھی ہیں۔ ان میں موجود مناظر ایک جیسے ہیں چاہے وہ کوئی شاپنگ مال ہو، ایئرپورٹ ہو یا سپر مارکیٹ جہاں زومبی اسی طرح چل پھر رہے ہیں جیسے عام انسان خریداری کرتے ہیں یا سیکیورٹی عملے کو تلاشی دینے میں مصروف ہوتے ہیں۔

جرموش کی اس فلم کے زومبی کردار اپنی زندگی کے دوران گزارے لمحات کو واپس پانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایگی پوپ کے کردار کی بات کریں تو اس میں کافی پینے کی خواہش زندہ رہنے سے بھی زیادہ پائی جاتی ہے۔ گوشت چبانا بس ایک معمولی عادت معلوم ہوتی ہے۔ اس کا اصل مقصد بس کیفین کی تلاش ہے جو  اسے زندگی سے بھرپور محسوس کروا سکتی ہے اور وہ اسے بھی ایک دم نہیں پی جاتے۔ آپ جرمسچ جیسے تجربہ کار اور باعزت فلمساز سے یہی امید کریں گے کہ وہ اصل چیزوں پر توجہ دیں گے۔

زومبی فلموں کے ساتھ مسئلہ ان کی تعداد میں اضافہ نہیں بلکہ وہ انداز ہے  جس طرح انہیں مسخ کیا جا رہا ہے۔ اب یہ ہر قسم اور ہر شکل میں بنائی جا رہی ہیں۔ حالیہ سالوں میں ہم زومبی کاسٹیوم ڈرامہ ’پرائیڈ اینڈ پریجوڈس اینڈ زومبیز‘، نازی زومبی فلم ’ڈیڈ سنو‘، زومبی سائنس فکشن ’دی گرل ود آل دی گفٹس‘، ’ٹوئنٹی ایٹ ڈیز لیٹر‘ اور ’ٹوئنٹی ایٹ ویکس لیٹر‘، زومبی مزاحیہ فلم ’شون آف دی ڈیڈ‘، رومانوی زومبی فلم ’وارم باڈیز‘ کے علاوہ کم لاگت کی ہلکی پھلکی کئی زومبی فلمیں دیکھ چکے ہیں۔

اب بس کچھ ہی وقت رہتا ہے جب ہم بریگزٹ زومبی فلمیں بھی دیکھیں گے جن میں یورپی یونین چھوڑنے کے حامی یورپی یونین کے ساتھ رہنے والوں کو چیر پھاڑ رہے ہوں گے یا اس کے الٹ ہونا  بھی ممکن ہے۔

زیادہ تر فلمیں اسی مشاہداتی رجحان کی عکاسی کرتی ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کی تجاوزات کے بارے میں ہیں یا موجودہ دور میں کیسے ہر شخص ڈیجیٹل نگرانی کی وجہ سے برین واش ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ یہ امیر اور غریب ڈرونز کے درمیان بڑھتی خلیج کی کہانی بھی ہو سکتی ہے۔ یہ سب بار بار دہرائی جانے والی کہانیاں محسوس ہوتی ہیں۔ صنف، نسل اور طبقات کے بارے میں ان کا پیغام اس حد تک سطحی ہو چکا ہے کہ وہ اپنا اثر کھو چکا ہے۔

زومبی انسائیکلوپیڈیا کے لکھاری پیٹر ڈینڈل کے مطابق وہ سینکڑوں کی تعداد میں زومبی فلمیں دیکھ چکے ہیں۔ ان کے 2000 سے 2010  کی دہائی کے دوسرے والیم کے مطابق 2000  کی دہائی میں زومبی فلموں نے دوبارہ جنم لیا ہے۔ ڈینڈل اس کی وجہ نائن الیون کے حملوں کو قرار دیتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ بلواسطہ طور پر بے چینی کا شکار ہوئے اور فلم سازوں نے اس نوعیت کی فلموں کو قبول کرنا شروع کیا۔ اس کے علاوہ طوفان کترینہ یا برطانیہ میں آنے والی منہ کھر کی بیماری نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔

ڈینڈل لکھتے ہیں :’بیرونی طور پر جوشیلی ایکشن فلموں کے سامنے کبھی بھی نہیں ٹکنا چاہیے، چاہے وہ رومانوی فلمیں ہو یا ڈراؤنی، لیکن اس کے باوجود زومبیز کی فلموں نے اپنی مقبولیت برقرار رکھی ہے۔‘ ان کے مطابق زومبی فلموں نے باکس آفس پر بھی اچھی کارکردگی دکھائی ہے۔

یہ فلمیں بنانے کی سب سے زیادہ جمہوری اور آسان طرز بن چکی ہے۔ کلاسک زومبی ٹرائیولوجی کے ڈائریکٹر جارج رومیرو، جنہوں نے تین مشہور زومبی فلمیں ’نائٹ آف دی لونگ ڈیڈ‘ (1968)، ’ڈان آف دی ڈیڈ‘ (1978) اور ’ڈے آف دی ڈیڈ‘ (1985) بنائی ہیں، نے ایک بار اپنے انٹرویو میں کہا تھا: ’میری نظر میں زومبی ہمیشہ ہی ایک محنت نہ کرنے والی بلا ہے اور وہ ہم ہی ہیں۔‘

لیکن آج کی فلموں میں تبدیلی یہ ہے کہ زومبی صرف محنت نہ کرنے والے افراد نہیں بلکہ وہ محنت نہ کرنے والے ڈائریکٹرز کی تخلیق بن چکے ہیں۔ کم لاگت، برے تکنیکی معیار، میک اپ اور کیچپ سے بھرپور فلمیں ڈسٹری بیوٹرز کی جانب سے پسند نہیں کی جاتی اور وہ بہت مختصر کمرشل زندگی رکھتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک طرف تو وہ موجودہ دور میں زومبیز کی کثرت کو جشن کی طرح پیش کرتے ہیں۔ فلم سازوں کی ایک فوج ہے جو مر کر بھی نہ مرنے والوں کی کہانی سنا رہی ہے اور  اسے کاروبار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔آپ چاہتے ہوئے بھی اس انتشار پسند بے ادبی اور آزادانہ کاروبار کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتے جو زومبی فلموں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔

تاہم زومبی کی حیاتِ نو کا تاریک پہلو بھی ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ زومبی فلموں میں نہ صرف تشدد کے عنصر کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے بلکہ بعض اوقات تو اس کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہے جبکہ کہانی کو کسی اور طریقے سے بھی بیان کر کے اس سے بچا جا سکتا ہے۔

اس غیرمردہ مخلوق کو بہرحال انسان نہیں کہا جا سکتا اور اسی وجہ سے ان کی سلطنت کو بم سے اڑانے، ان کا سر قلم کرنے یا ان کے جسموں کو ٹکروں میں تقسیم کر دینے کے عمل کو قابل قبول سمجھا جانے لگا ہے۔ ان فلموں میں تشدد اتنا عام ہو چکا ہے کہ اگر کوئی فلم تشدد سے پاک ہو تو ناظرین اس سے مایوس ہو جاتے ہیں۔

زومبی فلموں کو اتنے وسیع پیمانے پر بنایا گیا ہے کہ اب ان میں اوچھا پن اور مزاحیہ پن جھلکنا شروع ہو گیا ہے۔

یہاں یہ جاننا سبق آموز ہے کہ لوگ رومیرو کے کام کے حوالے سے کیا لکھتے رہے ہیں۔ 

انگلش فلموں کے بااثر ناقد رابن ووڈ نے ’ڈیڈ‘ (مردہ) تدوین کو جدید امریکی سنیما کی سب سے زیادہ قابل ذکر اور شاندار ترین کامیابیوں سے تعبیر کیا ہے جس پر جدید امریکہ میں اب کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے ساتھی مدبرین نے بھی ’ڈے آف دی ڈیڈ‘، ’ڈان آف دی ڈیڈ‘ اور ’نائٹ آف دی لیونگ ڈیڈ‘ جیسی فلموں کو ادبی مادہ پرستی اور حقیقت پسندی کی بھدی شکل قرار دیا ہے۔

اپنی کتاب ’دی سنیما آف جارج رومیرو‘ میں ٹونی ولیمز نے لکھا کہ رومیرو کی فلموں میں 19 ویں صدی کے فرانسیسی ناول نگار ایمائل زولا اور ڈائریکٹرز پاوئل اور پریس برجر کی ڈراؤنی اوپرا فلم ’دی ٹیلز آف ہافمین‘ کی جھلک نمایاں تھی۔

ان مدبرین کے حوالے سے پائے جانے والے ابہام یا ان کے معروف ڈراؤنی فلموں کے بارے میں دعوؤں کو نظر انداز کر بھی دیا جائے تو یہ واضح ہے کہ رومیرو کا کام متنوع اور اشتعال انگیز تھا جو پروفیسرز سے لے کر عام پرستاروں تک ہر شخص کے لیے متاثر کن تھا۔

زومبی فلمیں اُس دور سے بننا شروع ہو گئی تھیں جب فلموں میں آوازیں شامل کی جانے لگی تھیں۔ وکٹر ہیلپرائن کی 1932 میں بننے والی ’وائٹ زومبی‘ کو پہلی مکمل زومبی فلم قرار دیا جاتا ہے جبکہ 1943 میں جیکس ٹورنر کی ’آئی واکڈ ودھ آ زومبی‘ کو امریکہ کی پہلی عظیم ڈراؤنی فلم کا خطاب دیا جاتا ہے۔اُس دور میں زومبی فلموں کو غلامی کی میراث کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ وہ اسے نسلی کشیدگی اور اختلاط نسل کے خوف سے نمٹنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔’آئی واکڈ ودھ آ زومبی‘ میں سب سے بہترین بات اس کا ادبی معیار ہے۔

اگر برونٹے سسٹرز کو ’ہاورتھ‘ سے ہٹا کر 1940 کی دہائی میں’آر کے او‘ نے مشترکہ سکرپٹ کے لیے بھرتی کر لیا ہوتا تو اس کا نتیجہ بالکل جین ایر کی طرز کی اپ ڈیٹڈ کہانی کی صورت میں نکلتا جیسا کہ آپ ان کو مشترکہ طور پر لکھتے ہوئے تصور کر سکتے ہیں۔ اس فلم میں ابتدائی حیرت انگیز منظر پیش کیا گیا ہے جس میں ایک نوجوان نرس (فرانسس ڈی) ایک بحری جہاز پر غرب الہند کے لیے عازم سفر ہیں، جہاں ان کا کام ایک گنے کے کاشتکار کی سکتہ کی شکار بیوی کی خدمت کرنا ہے۔  یہ ایک پُرکشش چاندنی رات ہے اور وہ بحری جہاز کے عشرے پر کھڑی اس منظر کی تعریف کرتی ہے۔ لیکن اس کا آجر اس کے برعکس سوچتا ہے۔

’یہ خوبصورت نہیں ہے،‘ نرس کے آجر (ٹام کانوے) نے اسے خبردار کیا۔ ’تمہیں یہ سب کچھ اس لیے خوبصورت لگ رہا ہے کیوں کہ تم اس کی حقیقت سے ناواقف ہو۔ وہ پانی کی سطح پر اچھلتی مچھلیاں خوشی سے مست  ہو کر جھلانگیں نہیں لگا رہی ہیں بلکہ وہ دہشت زدہ ہیں کہ بڑی مچھلیاں انہیں ہڑپ نہ کر لیں۔ یہ روشن پانی لاکھوں چھوٹے مردہ جسموں سے چمک حاصل کر رہا ہے۔ یہ گلنے سڑنے کی چمک ہے۔‘

عصر حاضر کی زومبی فلموں میں گلنے سڑنے کی چمک جیسے کلاسیکل محاوروں کے بارے میں زیادہ بات نہیں کی جاتی۔ اب کرداروں کو ایسے محاروں میں وقت ضائع کرنے کی بجائے غیرمردہ مخلوق کو برقی آلات سے کاٹنے یا مشین گن سے ان میں سوراخ کرنے میں مصروف دکھایا جاتا ہے۔    

جرموش کی فلم ’دی ڈیڈ ڈونٹ ڈائی‘ اور اس جیسی بےسروپا کہانیوں پر مبنی فلمیں ایک طویل روایت کی پیروی کر رہی ہیں جو ہمیں ماضی میں کھینچ کر لے جاتی ہیں جب 1945 میں ’شن آف دی ڈیڈ‘، ’زومبی آن براڈوے‘ اور 1953 کی’سکریڈ سٹف‘ جیسی فلمیں پیش کی گئی تھیں۔

جرموش کے لیے المیہ یہ ہے کہ وہ بھیڑ سے بھرے شعبے میں قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔ زومبی ہمیں ڈرانے یا حتیٰ کہ ہنسانے کی صلاحیت تیزی سے کھو رہے ہیں۔ مختصر مدت کے لیے ہی صحیح لیکن ہمیں یکسانیت سے چھٹکارے کی ضرورت ہے جبکہ طویل مدت کے لیے اس سے یہ فائدہ ہو گا کہ ہم اس انتہاپسندی کے بارے میں دوبارہ نہ سوچیں۔ یہ یقینی طور پر غیرمردہ مخلوق کے لیے مرنے کا وقت ہے یا کم از کم وہ لمبی چھٹیوں پر ہی چلے جائیں۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی فلم