پاکستان میں سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کا واحد حل انتخابات؟

اکثر سیاسی مبصرین کے خیال میں سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی گرفتاری یا نااہلی کے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں، جن سے ملک کی سیاست کے علاوہ معیشت بھی بری طرح متاثر ہو گی۔

25 اگست 2022 کی اس تصویر میں پی ٹی آئی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش ہونے آ رہے ہیں، جہاں پولیس اور عدلیہ کو دھمکیاں دینے کے مقدمے میں ان کی عبوری ضمانت منظور کی گئی (تصویر: اے ایف پی)

پاکستان میں موجودہ سیاسی چپقلش، جس میں اتحادی جماعتوں پر مشتمل وفاقی حکومت اور حزب اختلاف کی بڑی جماعت پاکستان تحریک (پی ٹی آئی) انصاف دست و گریبان ہیں، کو تجزیہ کار اور سیاسی ماہرین نتائج سے قطع نظر ملک کے لیے کسی صورت بھی بہتر نہیں گردانتے اور ان کے خیال میں انتخابات ہی اس کا واحد حل ہیں۔

وزیراعظم شہباز شریف کی وفاقی حکومت سابق وزیراعظم عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کے دوسرے رہنماؤں کے خلاف کئی مقدمات درج کر چکی ہے، جبکہ الیکشن کمیشن کے ممنوعہ فنڈنگ کیس کے فیصلے کے تحت بھی کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ 

دوسری طرف پی ٹی آئی کے چیئرمین ملک بھر میں عوامی ریلیاں منعقد کر رہے ہیں، جہاں وہ نہ صرف سیاسی مخالفین بلکہ انتظامی اہلکاروں حتیٰ کہ عدلیہ سے متعلق بھی قابل اعتراض زبان استعمال کر رہے ہیں جبکہ ان کے کارکن اور حامی اپنے رہنما کی ممکنہ نااہلی کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ 

پاکستان کی سیاسی صورت حال پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار جنرل (ر) طلعت مسعود کہتے ہیں کہ عمران خان اس وقت جارحانہ موڈ میں ہیں جبکہ حکمران بھی ان کا مقابلہ کرنے کی غرض سے غلط طریقہ کار استعمال کر رہے ہیں۔ 

ان کے خیال میں حکمران اتحاد اور حزب اختلاف کے رویے ملک کو عدم استحکام کی طرف لے کر جا سکتے ہیں۔   

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ سیاست دانوں کے اس طرح کے جارحانہ رویے کسی بھی معاشرے میں پہلے سیاسی ماحول اور بعدازاں معیشت اور خارجہ امور کو متاثر کرتے ہیں۔ 

بڑھتا ہوا سیاسی درجہ حرارت 

وفاقی سطح پر اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد عمران خان جارحانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں، جس میں وہ اپنے سیاسی حریفوں کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔

جنرل (ر) طلعت مسعود کہتے ہیں کہ سابق وزیراعظم ہر ریاستی ادارے کی مخالفت اور قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، جس کا عام طور پر سیاسی جماعتیں ہر صورت تقدس برقرار رکھتی ہیں۔

تاہم تجزیہ کار حسن عسکری کے خیال میں سیاسی درجہ حرارت بڑھانے میں قصور وار صرف عمران خان نہیں بلکہ دونوں جانب سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

ویسے تو پاکستان تحریک انصاف کے دور میں حکمرانوں اور اپوزیشن کے درمیان تعلقات کوئی آئیڈیل نوعیت کے نہیں رہے، تاہم پاکستان کے سیاسی درجہ حرارت میں تیزی رواں سال کے اوائل میں دیکھنے میں آئی، جب اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوئی۔ 

عمران خان نے اس وقت کی اپوزیشن اور موجودہ حکمران جماعتوں پر غیر ملکی تعاون سے اپنی حکومت ختم کرنے کا الزام لگایا اور اپنے سیاسی حریفوں کے علاوہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو بھی ’رجیم چینج‘ کا ذمہ دار قرار دیا۔ 

اسی سال اگست میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آٹھ سال سے زیر سماعت ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنایا، جس میں عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کے بیرون ملک سے عطیات حاصل کرنے اور اثاثے خفیہ رکھنے کی تصدیق ہوئی۔ 

اس فیصلے کے نتیجے میں عمران خان اور تحریک انصاف کے دیگر رہنماؤں کے خلاف انکوائریاں، رٹ پٹیشنز اور مقدمات کا سلسلہ جاری تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے چیف آف سٹاف شہباز گل ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو میں مبینہ بغاوت کے مرتکب ہوئے اور ان کی گرفتاری عمل میں آئی۔

شہباز گل کی گرفتاری نے گویا پاکستان کے موجودہ سیاسی درجہ حرارت کے فوری اور بے انتہا اضافے میں عمل انگیز (کیٹالیسٹ) کا کردار ادا کیا اور حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان خلیج مزید بڑھ گئی ہے۔

شہباز گل کی گرفتاری اور ان پر مبینہ تشدد کے خلاف اسلام آباد میں ریلی منعقد کرنے اور اس میں انتظامی اہلکاروں اور ایک خاتون جج کو مبینہ دھمکیاں دینے پر عمران خان اور دوسرے پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف مزید مقدمات درج کیے گئے۔

دوسری طرف پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب، جہاں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ قائداعظم کی مخلوط حکومت ہے، میں پاکستان مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزرا اور دوسرے رہنماؤں کے خلاف مقدمات کے اندراج کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔

گرفتاری یا نااہلی ممکن ہے؟

ماہرین کے خیال میں پاکستان تحریک انصاف اور خصوصاً عمران خان کے خلاف کم عرصے میں بہت زیادہ مقدمات کا دائر ہونا یا انکوائریوں کا کھل جانا اس بات کا عندیہ ہے کہ پاکستان میں ’حقیقی فیصلہ ساز‘ انہیں سیاسی منظر نامے سے ہٹانے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔

خود عمران خان کو بھی اس حقیقت کا ادراک ہے، جس کا اظہار وہ کئی عوامی جلسوں سے خطاب کے علاوہ حال ہی میں صحافی اور اینکر پرسن حامد میر سے ون آن ون ملاقات میں بھی کرچکے ہیں۔

جیو نیوز کے ایک ٹاک شو کے میزبان حامد میر نے اس ملاقات كا احوال بتاتے ہوئے كہا کہ عمران خان شہباز گل کی گرفتاری کا مقصد انہیں (عمران خان کو) نیچا دکھانا قرار دیتے ہیں۔

لاہور یونیورسٹی آف سوشل سائنسز (لمز) میں استاد پروفیسر ڈاکٹر رئیس بخش رسول اس ساری صورت حال پر کہتے ہیں کہ ’اس وقت گیند اسٹیبلشمنٹ کی کورٹ میں ہے اور لگتا ہے کہ مقصد انہیں سیاسی منظر نامے سے آؤٹ کرنا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں پروفیسر ڈاکٹر رئیس بخش رسول کا کہنا تھا کہ عمران خان کے ساتھ اس سلسلے میں کوئی رعایت نہیں کی جائے گی۔

صحافی شہزاد اقبال کے خیال میں بھی بظاہر سابق وزیراعظم کو گرفتار اور نااہل کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے اور اس پلان کو عملی جامہ پہنانے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔

تاہم انہوں نے کہا: ’اب دیكھنا یہ ہے كہ عمران خان كو نااہل یا گرفتار كرنے كا پلان كامیاب ہوتا ہے یا نہیں؟‘

صحافی اور تجزیہ کار افتخار احمد نے عمران خان کی ممکنہ گرفتاری یا نااہلی کے امکانات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ایسی کسی کوشش کا کوئی وجود نہیں ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا: ’ایسی کوئی بات ہوتی تو عمران خان کو تمام مقدمات میں اتنی آسانی سے ضمانتیں نہ ملتیں، ایسا نواز شریف کے ساتھ تو کبھی نہیں ہوا، انہیں عدالت بلایا جاتا تھا، جبکہ عمران گھر بیٹھے گرفتاری سے بچ جاتے ہیں۔‘

دوسری جانب تجزیہ کار حسن عسکری نے اس سلسلے میں کہا کہ اگرچہ عمران خان کو تکنیکی بنیادوں پر نا اہل قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، تاہم ایسا ممکن نہیں ہو پائے گا۔

ان کا کہنا تھا: ’تجزبہ بتاتا ہے کہ کسی سیاست دان کو تکنیکی بنیادوں پر منظر نامے سے ہٹانے کا پلان کبھی بھی کامیاب نہیں ہوا، یہ منصوبہ بھی ناکام ہی ہو گا۔‘

صحافی اور وکیل بے نظیر شاہ نے بھی عمران خان کی گرفتاری یا اس کے نتیجے میں نااہلی کے امکانات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ سابق وزیراعظم کی عوامی مقبولیت انہیں اس خطرے سے ہمیشہ بچائے رکھے گی۔

انہوں نے کہا: ’عمران خان کی عوام میں مقبولیت نے انہیں گرفتاری یا نا اہلی کے خلاف بلٹ پروف بنا دیا ہے۔‘

گرفتاری یا نااہلی کے ممکنہ نتائج

اکثر سیاسی مبصرین سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری یا سیاست سے نااہلی کے خطرناک نتائج دیکھتے ہیں، جن کی وجہ ملک بھر میں شدید عوامی ردعمل قرار دیا جاتا ہے۔

حسن عسکری سمجھتے ہیں کہ عمران خان کی نااہلی یا گرفتاری کی صورت میں بہت بڑا ردعمل آئے گا، جس سے نہ صرف ملکی سیاست بلکہ معیشت اور خارجہ امور بھی بری طرح متاثر ہوں گے۔

اسی طرح جنرل (ر) طلعت مسعود کے خیال میں عمران خان کو جس قسم کی عوامی حمایت حاصل ہے، وہ کسی دوسری سیاسی جماعت کو حاصل ہے اور نہ کبھی رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’کسی بھی بے وقوفانہ اقدام سے ملک میں عوامی اشتعال پیدا ہو گا اور اس سے حالات گمبھیر رخ اختیار کر جائیں گے۔‘

اسی طرح پروفیسر ڈاكٹر رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف یا عمران خان پر پابندی کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا بلکہ یہ جماعت اور اس کا لیڈر مزید مضبوط ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی پر پابندی کی صورت میں کسی دوسرے نام سے سیاسی جماعت بنائی جا سکتی ہے اور ایسا پاکستان میں ماضی میں بھی ہو چکا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’گرفتاری کی صورت میں عمران خان جیل کے اندر سے اپنے پارٹی ورکرز کو ہدایات جاری کریں گے اور ان کی سپورٹ میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔‘

سینیئر سیاست دان اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے وکیل وسیم سجاد نے بھی اتفاق کیا کہ عمران کی نااہلی کی صورت میں ان کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہو گا۔

صحافی اور وکیل بے نظیر شاہ نے کہا کہ عمران خان کی نا اہلی کی صورت میں ان کے پارٹی ورکرز اور دوسرے پیروکار آئندہ عام انتخابات کا احتجاجاً بائیکاٹ کر سکتے ہیں، جس سے الیکشن کے ناکام ہونے کا خطرہ ہو گا۔ 

دوسری جانب صحافی اور تجزیہ کار حفیظ اللہ نیازی کے خیال میں ’عمران خان کی نااہلی کے لیے تیاریاں پوری ہو چکی ہیں اور ایسا ہونے کی صورت میں سابق وزیراعظم سیاسی منظر نامے سے گم ہو جائیں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ نا اہلی کی صورت میں پاکستان تحریک انصاف کے اندر سے عمران خان کی مخالفت اٹھے گی اور پھر اس جماعت میں انہیں کوئی اہمیت نہیں دے گا۔

حفیظ اللہ نیازی کا کہنا تھا کہ ’بھٹو اور نواز خاندانوں میں ان کے بیانیوں کو آگے بڑھانے کے لیے ان کی اگلی نسلیں موجود رہی ہیں جبکہ عمران خان کے کیس میں ان کا کوئی جانشین نہیں ہے۔‘

حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ ماضی میں بھی پاکستان میں مقبول سیاسی شخصیتوں کو نااہل کیا گیا، لیکن عوامی سطح پر سپورٹ ہونے کے باوجود کوئی ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ سابق وزرائے اعظم ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف سب مقبول سیاسی رہنما تھے، لیکن ان کی ہلاکتوں یا نااہلیوں نے کسی کو سڑکوں پر نہیں نکالا۔

’عمران خان کی نااہلی کی صورت میں بھی ایسا ہی ہو گا، کیونکہ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔‘

اسی طرح تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ’پاکستان تحریک انصاف کوئی تحریک یا منظم سیاسی قوت نہیں ہے، بلکہ محض ایک مجمع ہے، جو کسی مزاحمت کی صلاحیت نہیں رکھتا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی دوسری سیاسی جماعتوں کے برعکس پی ٹی آئی کے رہنما اور ورکرز جیلوں اور صعوبتوں کو برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، اس لیے ریاست کے سامنے ڈٹ جانا ان کے لیے ممکن نہیں ہو سکے گا۔

اس صورت حال کا حل کیا ہے؟

لمز میں پڑھانے والے پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس نے فوری انتخابات کو پاکستان کی حزب اقتدار و اختلاف کے درمیان جاری کشمکش اور سیاسی بحران کا واحد حل قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا: ’فوری انتخابات ہی واحد حل ہیں اور اب شک نہیں رہا کہ الیکشن کی صورت میں کامیابی کس کے نصیب میں آئے گی۔‘

اسی طرح صحافی افتخار احمد نے کہا کہ انتخابات کے ذریعے اکثریتی جماعتوں پر مشتمل جمہوری حکومت کا قیام ہی موجودہ بحران اور سیاسی ابتری کا حل ہے۔

انہوں نے کہا: ’انتخابات کی صورت میں پاکستان تحریک انصاف کا مستقبل روشن ہے، کیونکہ اس کے رہنما عمران خان نے ایک پوری نسل کو متاثر کیا ہے، جو انہیں ہر صورت سپورٹ کرتی رہے گی۔‘

لیکن بعض دیگر سیاسی پنڈتوں کا یہ بھی پوچھنا ہے کہ اگر جلد انتخابات منعقد کروا بھی لیے جائیں اس کے نتیجے میں وجود میں آنے والی حکومت کیا مستحکم ہوگی؟ اور کیا ہارنے والی جماعتیں اسے چین سے اصل ملکی مسائل سے نمٹنے دیں گی؟ ماضی کے بھاری مینڈیٹ والی حکومتوں کا بھی انجام کچھ اچھا نہیں رہا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست