سی سی ٹی وی فوٹیج دکھائی تو اغوا کا مقدمہ درج ہوا: وکیل فہیم بلوچ

ایڈووکیٹ امہ حبیبہ نے بتایا کہ کراچی کے اردو بازار سے 26 اگست کو کچھ پولیس اہلکار اور سادہ لباس میں ملبوس لوگ پبلشر اور دکان دار فہیم بلوچ کو ساتھ لے گئے، جس کا مقدمہ پولیس نے چار دن بعد درج کر لیا۔

(تصاویر فہیم بلوچ/ فیس بک پیج)

کراچی کے اردو بازار سے 26 اگست کو ’اغوا‘ ہونے والے نوجوان دکان دار اور پبلشر لالہ فہیم بلوچ کا مقدمہ پیر کو پریڈی تھانے کراچی میں درج کرلیا گیا۔

فہیم کی کزن ایڈووکیٹ امہ حبیبہ کی مدعیت میں یہ مقدمہ دفعہ 365/43 کے تحت درج ہوا ہے جبکہ انہوں نے عدالت میں ایک پٹیشن بھی دائر کر رکھی ہے جس کی منگل کو سماعت ہو گی۔

امہ حبیبہ نے ایف آئی آر میں موقف اختیار کیا کہ ’26 اگست کو کراچی کے اردو بازار سے فہیم بلوچ کو وردی اور بغیر وردی میں کچھ لوگ اپنے صاحب سے ملانے کے لیے بلا کر ساتھ لے گئے اور پھر چار روز گزرنے کے بعد بھی کوئی علم نہیں انہیں کون لے گیا اور کہاں لے گیا۔ 

 انہوں نے بتایا کہ بڑی کوشش کے بعد ’آج ہم پریڈی تھانے کراچی میں مقدمہ درج کرانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔‘ 

 انہوں نے دعویٰ کیا کہ پہلے متعلقہ پولیس سٹیشن معاملے سے لاعلمی کا اظہار کرتا رہا اور مقدمہ درج کرنے سے انکاری رہا۔

’جب ہم نے انہیں اس وقت کی سی سی ٹی وی فوٹیج دکھائی کہ کس طرح فہیم کو لے جایا جا رہا ہے تو انہوں نے مقدمہ درج کر لیا۔‘ 

انہوں نے بتایا کہ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اہلکار آٹھ بج کر 40 منٹ پر آتے ہیں اور 15 منٹ کے بعد فہیم کو ساتھ لے جاتے ہیں۔  

پریڈی تھانے کے ایس ایچ او سجاد خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو تصدیق کی کہ فہیم کے اغوا کا مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ فی الحال کیس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

امہ حبیبہ نے مزید بتایا کہ فہیم اردو بازار میں علم و ادب کے نام سے پبلشر کا کام کرتے ہیں، جو بلوچی زبان اور بلوچستان سے متعلق کتابیں چھاپنے کا کام کرتا ہے۔  

اس کے علاوہ وہ سہ ماہی گدان اور صدائے بلوچستان ڈاٹ کام  کے مدیر بھی ہیں۔  

 انہوں نے بتایا کہ رات کے نوبجے فہیم کے دوست کا فون آیا کہ ’انہیں پولیس والے اٹھا کر لے گئے ہیں۔‘

دوست نے مزید بتایا کہ ’تین پولیس اہلکار اور تین افراد سادہ لباس میں تھے، جنہوں نے ماسک لگائے ہوئے تھے۔

امہ حبیبہ کے مطابق: ’فہیم کے دوست نے بتایا کہ  اہلکاروں نے فہیم سے پوچھ گچھ کی اور دکان سے باہر نکالا، جس کے بعد انہوں نے کہا کہ نیچے ہمارے صاحب بیٹھے ہیں وہ آپ سے کچھ پوچھنا چاہتے ہیں اس لیے آپ ہمارے ساتھ چلیں۔

’فہیم کے دوست نے بتایا کہ پولیس والے اور دوسرے لوگ ایک کتاب کے بارے میں پوچھ رہے تھے کہ وہ کیسے جرمنی تک گئی اور اسے کس نے بھیجا۔‘

علم وادب پبلشر کے 25 سالہ جنرل منیجر فتح نواز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم نے کبھی کوئی ایسا مواد نہیں چھاپا جو متنازع ہو۔ سیاسی کتابیں بھی وہی ہوتی تھیں جو اخباری کالم ہوتے یا پہلے سے چھاپ شدہ کتابیں تھیں۔ 

’ہم جرمنی اور سویڈن سمیت جہاں سے بھی آرڈر آئے کتابیں بھیج دیتے ہیں، ہمارا تو کام ہی کتابوں کا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امہ حبیبہ کا مزید کہنا تھا کہ پچھلے چار دن سے فہیم کا کچھ پتہ نہیں جس سے ہمیں بہت ذہنی اذیت کا سامنا ہے۔ 

وہ بتاتی ہیں کہ فہیم کافی عرصے سے کتابیں چھاپ رہے تھے جو اکثر بلوچی ادب اور بلوچستان سے متعلق ہوتی ہیں۔

’فہیم سیاست سے دور رہنے والے ایک صحافی اور پبلشر ہیں۔‘

امہ حبیبہ نے بتایا کہ ان کے خاندان کو کبھی کوئی دھمکی یا خطرہ محسوس نہیں ہوا اور نہ ہی کبھی فہیم نے کسی ایسے مسئلے کا ذکر کیا۔

انہوں نے کہا کہ اگر فہیم نے کوئی جرم کیا ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائےاور مقدمہ چلایا جائے۔ ’ہمیں زیادہ تشویش ان کی صحت کے بارے میں ہے۔ وہ ذیابیطس کے مریض ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان