توہین عدالت کیس: عمران خان اپنے الفاظ واپس لینے کو تیار

عمران خان نے توہین عدالت کیس میں شوکاز نوٹس پر جواب جمع کرواتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ان کے الفاظ غیر مناسب تھے تو وہ انہیں واپس لینے کے لیے تیار ہیں۔

عمران خان 25 اگست، 2022 کو اسلام آباد کی ایک انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہونے کے لیے آ رہے ہیں (اے ایف پی)

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں توہین عدالت کیس میں شوکاز نوٹس پر جواب جمع کرواتے ہوئے اپنے کہے ہوئے الفاظ واپس لینے کی پیشکش کی ہے۔

21 صفحات پر مشتمل جواب اُن کے وکلا نے جمع کرایا۔ بدھ کو اسی کیس کی سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا پانچ رکنی بینچ کرنے جا رہا ہے۔

خیال رہے کہ ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری سے متعلق متازع ریمارکس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے انہیں شوکاز نوٹس جاری کرنے کے ساتھ ساتھ ذاتی حیثیت میں طلب کیا تھا۔

عمران خان نے اپنے جواب میں کہا کہ وہ ججز کے احساسات کو مجروع کرنے پر یقین نہیں رکھتے لہٰذا اگر ان کے الفاظ غیر مناسب تھے تو وہ انہیں واپس لینے کے لیے تیار ہیں۔

انہوں  نے کہا کہ عدالت تقریر کا سیاق و سباق کے ساتھ جائزہ لے، ان کے ایکشن لینے کی بات صرف آئین اور قانون کے مطابق کارروائی کی تھی۔

جواب میں موقف اختیار کیا گیا کہ تقریر میں کہا جانے والا جملہ 'آپ سب شرم کریں' کا مطلب وہ نہیں تھا جو سمجھا گیا۔

’اس جملے کو توہین عدالت سمجھا گیا جبکہ یہ تو تقریر کے دوران جوش خطابت میں بولا گیا جملہ تھا۔‘

 انہوں نے شوکاز نوٹس کے جواب میں یہ بھی کہا کہ وہ اس غلط فہمی اور مغالطے کا شکار تھے کہ مجسٹریٹ زیبا چوہدری سول سرونٹ ضلعی انتظامیہ کی مجسٹریٹ ہیں جو شہباز گِل کے معاملے پر وفاقی حکومت کی ہدایات پر عمل کر رہی ہیں۔ ورنہ علم ہوتا کہ جوڈیشل مجسٹریٹ ہیں تو کبھی ایسا نہ کہتے۔

’بدقسمتی سے بعض صحافیوں اور سیاست دانوں نے صنفی بحث کو اجاگر کیا۔ استدعا ہے کہ میرے خلاف توہین عدالت کا شوکاز نوٹس واپس لیا جائے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے پوری زندگی قانون اور آئین کی پابندی کی لیکن ان کے جملے میڈیا میں ایسے رپورٹ ہوئے جیسے وہ قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

’ہر شہری کا حق ہے کہ وہ کسی بھی عوامی عہدے دار یا جج کے مس کنڈکٹ پر شکایت کرے۔‘

عمران خان کے جواب میں موقف اختیار کیا گیا کہ ’میرا تقریر کے پیچھے کوئی برا مقصد نہیں تھا۔ نہ ہی میرے تقریر کے ریمارکس جوڈیشل افسر کی طرف تھے۔‘

انہوں نے کہا: ’میں نے شہباز گل پر تحویل کے دوران جسمانی تشدد کی وڈیو دیکھی اور جنسی زیادتی کا سنا۔ شہباز گل کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی انتہائی پریشان کن تھی۔‘

عمران خان نے جواب میں واضح کیا کہ انصاف کی راہ میں رکاوٹ کا کوئی ارادہ نہیں تھا کیونکہ ریمانڈ کا حکم پہلے سے دیا جا چکا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اس جواب کو عارضی سمجھا جائے کیونکہ ماتحت عدالت کا ریکارڈ نہیں مل سکا۔ محدود معلومات اور جوڈیشل ریکارڈ کی بنیاد پر جواب تیار کیا ہے۔‘

عمران خان نے توہین عدالت کی کارروائی قابل سماعت ہونے پر بھی سوال اٹھایا اور کہا ہائی کورٹ کو توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کا اختیار نہیں تھا۔

’رجسٹرار ماتحت عدلیہ کے جج کے ریفرنس کے بغیر توہین عدالت کی کارروائی کا اختیار نہیں رکھتا۔ مذکورہ ریمارکس انصاف کی راہ میں مداخلت نہیں تھے۔ نہ ہی ان ریمارکس کا مقصد عدالتی نظام کی سالمیت اور ساکھ کو کم کرنا تھا۔

’میں توہین عدالت کے مرتکب نہیں ہوا۔ ڈپٹی رجسٹرار  نے ایف نائن پارک میں تقریر سے چند الفاظ کا انتخاب کیا۔‘

جواب میں مزید لکھا گیا کہ جس اخبار کی کلپنگ پر توہین عدالت کی کارروائی شروع ہوئی وہ عمران خان کا ناقد اخبار ہے۔

دہشت گردی کا مقدمہ ختم کرنے کی درخواست

آج ہی کے دن عمران خان نے اپنے خلاف دہشت گردی کے مقدمے کو ختم کرنے کے لیے بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی۔

درخواست میں کہا گیا کہ تقریر پر دہشت گردی ایکٹ کی دفعات کے تحت 20 اگست کو تھانہ مارگلہ میں درج مقدمہ خارج کیا جائے۔

درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ انہوں نے ورلڈ کپ جتوایا، فلاحی کام کیے، ہسپتال ، یونیورسٹی بنائی۔پاکستان کے کچھ اصل ’سٹیٹس مین‘ میں سے وہ ایک ہیں۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ ’میرے خلاف بدنیتی سے دہشت گردی کا مقدمہ درج کرایا گیا ،کوئی ایسا کام نہیں کیا جس پر دہشت گردی کی دفعات لگائی جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں سرنڈر کر چکے ہیں، مقدمے کے اخراج کی درخواست پر فیصلے تک ایف آئی آر پر کارروائی معطل اور تفتیش روکنے کا حکم دیا جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان