’چین سے مقابلہ‘: پہلا انڈین ساختہ طیارہ بردار جہاز وکرانت میدان میں

اس جہاز کی تیاری کے ساتھ انڈیا ان ملکوں کی صف میں شامل ہو گیا ہے جو طیارہ بردار جہاز تیار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

طیارہ بردار بحری جہاز آئی این ایس وکرانت چار اگست 2021 کو تجرباتی مراحل کے دوران (فوٹو: اے ایف پی/ انڈین نیوی)

انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی نے جمعے کو جنوبی شہر کوچین میں انڈیا کے پہلے طیارہ بردار بحری جہاز آئی این ایس وکرانت کی رونمائی کردی ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس جہاز کی تیاری پر 17 برس لگے اور اس کا مقصد چین کی بحری طاقت کا مقابلہ کرنا ہے۔

البتہ آئی این ایس وکرانت سے انڈین ساختہ طیارے نہیں اڑیں گے بلکہ اس کا انحصار روسی ساختہ طیاروں پر ہو گا۔

فرانس کی کمپنی دسو اور امریکی کمپنی بوئنگ کے درمیان وکرانت کے لیے دو درجن طیارے فراہم کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔

وکرانت کو انڈین بحریہ نے تیار کیا ہے اور یہ ملک میں بننے والا سب سے بڑا بحری جہاز ہے۔ 262 میٹر طویل اس جہاز کا انتظام 1600 افراد پر مشتمل عملہ سنبھالے گا اور اس پر کل 30 طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کی گنجائش ہو گی۔

روئٹرز کے مطابق وکرانت کے 75 فیصد حصے مقامی طور پر تیار کیے گئے ہیں۔

خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طیارہ بردار جہاز کی تیاری میں چھ سال کی تاخیر کی وجہ سے اس کی قیمت میں چھ گنا اضافہ ہوا ہے اور اس کی تیاری پر آنے والی لاگت دو اعشاریہ پانچ ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ 47 ہزار 400 ٹن وزنی یہ جہاز اگلے سال یعنی 2023 کے آخر تک مکمل طور پر فعال ہو جائے گا۔

انڈین اخبار ’دی ہندو‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسے انڈیا کے مشرق میں واقع سمندر میں تعینات کیا جائے گا، جب کہ مغربی سمندر میں آئی این ایس وکراماندتیہ دفاعی ذمہ داریاں نبھائے گا۔

وکراماندتیہ بھی طیارہ بردار بحری جہاز ہے، جسے انڈیا نے روس سے 2004 میں خریدا تھا۔ یہ جہاز روس نے 1987 میں بنایا تھا، تاہم اسے 1996 میں ڈی کمیشن کر دیا گیا تھا۔

وکرانت کی لانچنگ کے بعد انڈیا امریکہ، برطانیہ، روس، اٹلی اور چین کے ہمراہ ان ملکوں کے کلب میں شامل ہو گیا ہے جو طیارہ بردار جہاز بنا سکتے ہیں۔

اس وقت اٹلی، چین اور برطانیہ کے پاس دو دو طیارہ بردار جہاز ہیں، روس کے پاس ایک، جب کہ امریکی بحریہ 11 طیارہ بردار جہازوں کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی بحری طاقت ہے۔

وکرانت سے پاکستانی بحریہ اور انڈین بحریہ کے توازن پر کیا فرق پڑے گا؟

دفاعی تجزیہ کار رفعت حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’دونوں ملکوں کا پہلے ہی کوئی مقابلہ نہیں کیوں کہ ویسے بھی انڈیا کی بحری طاقت پاکستان سے کوئی پانچ سے چھ گنا زیادہ ہے، اس لیے ایک جہاز سے کوئی بڑا فرق نہیں پڑنے والا۔ اس کے علاوہ انڈیا کے پاس ایٹمی طاقت سے چلنے والی آبدوزیں بھی ہیں، تو توازن پہلے ہی سے انڈیا کے حق میں جھکا ہوا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

البتہ انہوں نے کہا کہ ’پاکستانی بحریہ اپنے ساحلوں کا دفاع کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے اور حالیہ برسوں میں انہوں نے اپنی استعداد میں اضافہ بھی کیا ہے۔

رفعت حسین نے اس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’حالیہ برسوں میں پاکستانی بحریہ نے اپنے سمندر میں انڈین آبدوزوں کی کامیابی سے نشان دہی کر کے انہیں وارننگ دی تھی۔‘

اصل ہدف چین

رفعت حسین نے وکرانت کی تیاری کے بارے میں کہا کہ یہ پاکستان کے ساتھ مقابلے کے لیے نہیں بنایا گیا، بلکہ دراصل انڈیا کا خواب ’بلو واٹر نیوی‘ بننے کا ہے، یعنی ’وہ اپنی بحری طاقت کو عالمی سطح پر لانچ کرنا چاہتا ہے، اور وکرانت دراصل اسی خواب کی تکمیل کا ایک حصہ ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’امریکہ انڈیا کی پشت پناہی کر رہا ہے کیوں کہ امریکہ کی اصل مخاصمت چین کے ساتھ ہے اور وہ انڈیا کے ساتھ مل کر اس کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے۔‘

رفعت حسین نے بتایا کہ ’انڈیا اس وقت QUAD نامی تنظیم کا حصہ ہے جس میں انڈیا کے علاوہ امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا شامل ہیں اور اس کا بنیادی مقصد چین کا گھیراؤ کرنا ہے۔ انڈیا کے حصے میں بحرِ ہند کا حصہ آیا ہے اور وہ اس کی رکھوالی کرنے کی کوشش کرے گا۔‘

انہوں نے  مزید کہا کہ چین کی ساحلی پٹی بہت طویل ہے اور اس میں بحرالکاہل کے علاوہ ایشیا کے علاقے بھی آتے ہیں۔ لیکن رفعت حسین کے مطابق: ’ایک جہاز کی تیاری کا یہ مطلب نہیں کہ انڈیا چین کے برابر آ گیا ہے کیوں کہ چینی بحریہ ان سے اتنی ہی آگے ہے جتنی انڈین بحریہ پاکستان سے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا