کیا نواز شریف اور شہباز شریف ایک پیج پر ہیں؟

عوام میں اس تاثر کو مستحکم کرنے کی کوشش ہے کہ جو بھی ہو رہا ہے نواز شریف کی مرضی کے بغیر ہو رہا ہے۔ معلوم نہیں ن لیگ سادہ بہت ہے یا ہوشیار بہت؟

پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف چار اکتوبر، 2017 کو لاہور میں پارٹی ورکرز کنونشن کے دوران اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف سے ہاتھ ملا رہے ہیں (اے ایف پی)

یہ تحریر آپ کالم نگار کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں:


تیزی سے غیر مقبول ہوتے عمران خان کو اقتدار سے الگ کر کے رستم بنانے کے بعد ن لیگ پریشان ہے۔ اب اس کی ساری توجہ یہ ثابت کرنے پر مرکوز ہے کہ نواز شریف اس طرز حکومت سے مطمئن نہیں۔

خرابی مگر یہ ہے کہ اداکاری کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو، کارکردگی کا متبادل نہیں بن سکتی۔

مسلم لیگ ن کے ہاں یہ احساس پیدا ہو رہا ہے کہ دیوانگی شوق میں غلطی ہو گئی۔ عمران اب سرخرو کھڑے سب کو للکار رہے ہیں اور ان کے دور قتدار کا حساب بھی اگلے الیکشن میں ن لیگ کو دینا ہو گا۔

سوال اب عمران خان سے نہیں، ن لیگ سے ہونا ہے کہ تم بڑے چاؤ سے اقتدار میں آئے تھے، لیکن تم نے تو زندگی ہی پہاڑ کر دی۔

ن لیگ مگر اس غلطی کا اعتراف نہیں کر رہی۔ شاید اس نے عوام کی نیم خواندگی کو اپنی قوت بنا نے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

اہتمام سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ یہ جو کچھ ہوا قائد محترم نواز شریف کی مرضی کے بغیر ہوا اور شہباز شریف اور نواز شریف ایک پیج پر نہیں ہیں۔ مسلم لیگ ن کو اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ نوے کی دہائی نہیں ہے، پرانی اور روایتی فلمیں اب پٹ جاتی ہیں۔

لوگ بجلی کے بل دیکھ کر شدت غم سے چیختے ہیں تو مریم نواز ان کے ٹویٹ کو ری ٹویٹ کر کے دو آنسو بہا دیتی ہیں۔

یوں گویا وہ یہ تاثر دیتی ہیں کہ میری اور نواز شریف والی مسلم لیگ تو عوام کے ساتھ ہے، یہ مہنگائی کرنے والی مسلم لیگ شہباز شریف والی ہے۔

پٹرول کی قیمتوں میں خوفناک اضافہ ہوتا ہے تو قوم کو بتاتی ہیں کہ میاں نواز شریف تو پیٹرول کی قیمت میں اضافے کا سن کر  اتنے خفا ہوئے کہ میٹنگ سے ہی اٹھ گئے تھے۔ یہاں بھی وہی تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ میاں نواز شریف تو بہت اچھے ہیں، بس یہ والی حکومت غلط کر رہی ہے۔

مفتاح اسماعیل کے بیانیے سے قوم کی روح تک گھائل ہو جاتی ہے تو اسحاق ڈار اپنا موقف لے آتے ہیں تاکہ سند رہے کہ یہ والی مسلم لیگ تو بہت اچھی ہے۔

یہ ایک شعوری کوشش ہے کہ اس دور اقتدار میں عوام کو نچوڑ بھی لیا جائے اور اگلے الیکشن کے لیے ایک بیانیہ بھی تشکیل دے دیا جائے کہ وہ سب کچھ شہباز شریف نے کیا تھا۔

اب میاں نواز شریف میدان میں ہیں اب پہلے جیسی حکومت نہیں ہو گی۔ اب تو کمالات ہوں گے۔ اب تو دودھ کی نہریں بہیں گی۔ اب تو شہد کے جھرنے پھوٹیں گے۔ اب تو جون میں برفیں پڑیں گی، اب تو دسمبر گرم ہو گا۔

سوال یہ ہے کیا یہ بیانیہ کامیاب ہو جائے گا؟ کیا نواز شریف مجبور ہو چکے ہیں؟

آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ نواز شریف جن مقامات پر رجز پڑھتے رہے شہباز شریف انہی مقامات کو قصیدہ بنا دیتے ہیں؟

ووٹ کو عزت دو کا نعرہ کیا ہوا؟ عزیمت کا وہ بانکپن اتنا فدویانہ کیسے ہو گیا؟

عمران یو ٹرن لیتے تھے، ن لیگ نے تو اباؤٹ ٹرن ہی لے لیا۔ غیب سے جیسے کوئی آواز آئی: ’جیسے تھے‘  اور ن لیگ الٹے قدموں لوٹ آئی۔ یہ اختلافات ہیں، بے بسی ہے، حالات کا جبر ہے یا دونوں بھائی ایک پیج پر ہیں اور حکمت عملی کے تحت گڈ کاپ، بیڈ کاپ کھیلا جا رہا ہے؟

دو سوالات بہت اہم ہیں اور مسلم لیگ ن چاہے بھی تو ان سوالات کے آسیب سے دامن نہیں بچا سکتی۔

پہلا سوال یہ ہے کہ ایسی کیا افتاد آن پڑی تھی کہ عمران خان کو اس وقت اقتدار سے الگ کیا جاتا جب وہ اقتدار کی غالب مدت پوری کر چکے تھے؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ عمران کو اقتدار سے الگ کر ہی دیا تھا تو مسلم لیگ ن کے پاس متبادل معاشی حکمت عملی کیا تھی؟

عمران خان آج پہلے سے زیادہ مقبول ہیں۔ انہیں اگر اقتدار سے الگ نہ کیا جاتا تو ان کی سیاست اس وقت نیم جان ہوتی۔

جس تیزی سے وہ غیر مقبول ہو رہے تھے امکان یہی تھا اگلے انتخابات میں ان کا ٹکٹ لینے والا ہی کوئی نہ ہو گا۔

لیکن آج وہ سیاست کی سب سے طاقتور آواز ہیں۔ قانون کی زد میں آ کر نااہل ہو جائیں تو الگ بات ہے لیکن سیاست کی دنیا میں اس وقت عمران خان کا کوئی مقابل نہیں۔ انہوں نے سب کو دھول چٹا دی ہے۔

دوسری طرف مسلم لیگ ن اپنے اس ایڈوینچر کے بوجھ تلے کچلی جا رہی ہے۔

جن حلیفوں نے اسے شہہ دی تھی کہ بہار آئے نہ آئے خزاں کو ختم ہونی چاہیے تھی وہ وزارتوں کا ’مال غنیمت‘ لے کر گھروں کو لوٹ گئے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شور تھا کہ ہم اقتدار میں آئیں گے تو عمران کے ہاتھوں تباہ ہونے والی معیشت کو اپنے قدموں پر کھڑا کر دیں گے لیکن معلوم یہ ہوا کہ ن لیگ حکومت کی کل معاشی بصیرت یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی ہر شرط مان کر قرض لے لیا جائے۔

قرض کا حصول بے شک ضروری ہو گا لیکن کیا ہر شرط مان کر لیا جانے والا قرض بھی کامیابی کے باب میں درج کیا جا سکتا ہے؟

دیوالیہ ہونے سے بچ کر حکومتی اداروں اور جملہ افسر شاہی کے اخراجات تو پورے ہو جائیں گے لیکن کیا اچھی طرز حکومت صرف افسر شاہی کے ناز اٹھانے کا نام ہے؟ اس سارے بندوبست میں عوام کہاں ہیں؟

محسوس یہ ہوتا ہے کہ ن لیگ کی توجہ اب کارکردگی پر نہیں، اداکاری پر ہے۔

سکرپٹ یہ ہے کہ عوام میں اس تاثر کو مستحکم کر دیا جائے کہ یہ جو بھی ہو رہا ہے نواز شریف کی مرضی کے بغیر ہو رہا ہے۔ وہ بہت دکھی ہیں۔

مقصود یہ ہے کہ پہلے شہباز شریف عملیت پسندی کے فوائد سمیٹ لیں اور پھر نواز شریف آکر مثالیت پسندی کے رجز پڑھیں اور میلہ لوٹ لیں۔

معلوم نہیں ن لیگ سادہ بہت ہے یا ہوشیار بہت؟

نوٹ: یہ مضمون لکھاری کی ذاتی رائے پر مبنی ہے اور ادارے کا اس کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ