کیا بالی وڈ مودی کی ہندو انتہا پرستی کی بھینٹ چڑھ رہا ہے؟

مودی ہر حال میں پرتعصب نظریات فروغ دینا چاہتے ہیں اور بولی وڈ یہ کام انتہائی محنت اور ’ایمانداری‘ سے سر انجام دے رہا ہے۔

فلم فیئر ایوارڈز میں 14 نامزدگیوں کے باوجود 83 تعداد کے اعتبار سے لمبی چوڑی کامیابیاں نہ سمیٹ سکی (اے ایف پی)

مودی حکومت میں شاید ہی کوئی شعبہ ہندو انتہا پرستی کی ’زہریلی‘ لہر سے محفوظ رہا ہو۔ ایسے میں بالی وڈ کا تیزی سے پروپیگنڈا مشین بننا باعث حیرت نہیں۔

گذشتہ چند برسوں میں سامنے آنے والی بڑے بجٹ اور باکس آفس سپر ہٹ فلموں کی اکثریت اپنی تمام توانائیاں ہندو انتہا پرستی کی نئی دیومالا تخلیق کرنے پر صرف کرتی نظر آتی ہے۔ چاہے وہ پدماوت، وار (2019 میں سب سے زیادہ کمائی کرنے والی انڈین فلم)، اڑی: دی سرجیکل سٹرائیک، تنہاجی (2020 میں سب سے زیادہ کمائی کرنے والی انڈین فلم) اور دی کشمیر فائلز ہو یا گذشتہ ہفتے فلم فیئر ایوارڈز میں دھوم مچانے والی سردار اودھم، شیر شاہ اور رنویر سنگھ کو بہترین اداکار کی ٹرافی جتوانے والی سپورٹس بائیوپک 83۔

بطور فن پارہ ان میں سے بیشتر فلمیں ناقص سکرپٹ، فارمولا کہانیوں، واہیات مکالموں اور تھکڑ ایکٹنگ کے سوا کچھ نہیں۔ یہ پروپیگنڈا ہیں اور انتہائی بھونڈا پروپیگنڈا۔ کیوں کہ ان کے فلم ساز کسی جذباتی وابستگی کی بنا پر نہیں بلکہ مارکیٹ کا رجحان دیکھتے ہوئے تعصب کی دکانیں کھول کر بیٹھ گئے ہیں۔

انہیں اس سے کچھ غرض نہیں کہ ایک ایسا میڈیم جو لاکھوں لوگوں کو متاثر کرنے کی غیرمعمولی صلاحیت رکھتا ہے وہ نوجوان نسل کو کس ڈگر پہ ہانک رہا ہے۔ وہ مال بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور مودی حکومت اپنی جڑیں گہری کرنا چاہتی ہے۔ سو بالی وڈ اس بھیانک گٹھ جوڑ میں آرٹ کی تذلیل اور اپنی رسوائی کی ایسی تاریخ رقم کر رہا ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔

اگر آپ مشہور فلم ساز انوراگ کیشپ ہونے کے باوجود مودی حکومت پر تنقید کے چار لفظ بول دیں تو سرکاری کارندے آپ کے گھر چھاپے مارنا شروع کر دیتے ہیں۔ اگر آپ کنگ خان ہونے کے باوجود دوسرے مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنا پورا جھکاؤ حکومت کے پلڑے میں نہیں ڈالتے تو آپ کا بیٹا منشیات کے کیس میں دھر لیا جاتا ہے۔

دوسری طرف مودی حکومت کے نظریات کو سامنے رکھتے ہوئے دی کشمیر فائلز (2022) بنا ڈالیے۔ بس اتنی سی بات ہے کہ مسلمانوں کو بحیثیت قوم دہشت گرد اور ہندو پنڈتوں کا قاتل دکھانا ہے جس کے بعد نہ صرف پردھان منتری آپ کی تعریف میں موتی بکھیریں گے بلکہ مختلف ریاستوں کے سربراہ آپ کے شاہکار کو ٹیکس سے بھی استثنیٰ دے ڈالیں گے۔ ایسا تو مغل اعظم کے لیے نہیں ہوا تھا جیسا دی کشمیر فائلز کی ریلیز پر ہوا کہ حکومتی ملازمین کو فلم دیکھنے کے لیے آدھی چھٹی دی جانے لگی۔

دی کشمیر فائلز رواں برس کی اب تک سب سے زیادہ کمائی کرنے والی بالی وڈ فلم ہے۔ دیکھیے اگلے برس کون کون سے فلم فیئر ایوارڈز اس کی پیشانی میں جڑ دیے جاتے ہیں لیکن سر دست ہم ہندو انتہا پسندی کی موجودہ لہر اور بالی وڈ کے پروپیگنڈے کا تجزیہ ایسی دو فلموں کی روشنی میں کرتے ہیں جنہوں نے گذشتہ ہفتے فیئر ایوارڈ میلے میں اہم ترین ٹرافیاں جیتیں اور ایک بار پھر بھارتی میڈیا میں ان کا بہت چرچا ہے۔

شیر شاہ (2021)

2016 میں مودی حکومت نے پاکستان کے خلاف سرجیکل سٹرائیکس کیے اور بعد میں پردھان منتری نے ہر موقع پر اس کا کریڈٹ لیا۔ کانگریس کی اعلیٰ قیادت نے اسے مودی کی سیاسی چال کہتے ہوئے انتخابات جیتنے کی مذموم کوشش قرار دیا۔

 مودی کی سرجیکل سٹرائیکس کا دھواں ابھی فضا سے چھٹا نہ تھا کہ بالی وڈ میں ایک نئی فلم اڑی: دی سرجیکل سٹرائیک کی بنیاد ڈال دی گئی۔ مگر مودی کے انڈیا میں جنگ ایسا موضوع نہیں جس پر ایک دو فلموں سے تسلی ہو سکے۔ سو گذشتہ تین چار برس میں ایسی کئی فلمیں سامنے آئیں جن کا مقصد جنگی جنون کو ہوا دینا اور بھارتی برتری ثابت کرنا تھا۔ شیر شاہ بھی اسی قبیل کا پراپیگنڈہ ہے۔

کارگل وار پہ اب تک بالی وڈ کی تقریباً سات فلمیں بن چکی ہیں جو ایک دوسرے سے بڑھ کر بھونڈا پروپیگنڈا ہیں۔ 19 کیٹیگریز میں نامزد ہونے والی شیر شاہ بیسٹ فلم اور بیسٹ ڈائریکٹر سمیت سات فلم فئیر ایوارڈز جیتنے میں کامیاب رہی۔

فلم کی کہانی کپٹن وکرم کے گرد گھومتی ہے جو اپنی جوانی کے آغاز میں دور درشن پر پرم ویر چکرا کی ایک تقریب دیکھ کر فوجی بننے کا فیصلہ کر لیتا ہے۔ عین بالی وڈ فارمولے کے مطابق بیچ میں ایک محبت ٹپک پڑتی ہے۔

فوج میں شمولیت کے بعد وکرم کو کشمیر جیسے حساس علاقے میں بھیج دیا جاتا ہے۔ یہاں کئی ’دہشت گردوں‘ کے خلاف کامیاب کارروائیاں اس کے روشن مستقبل پر مہر ثبت کر دیتی ہیں۔ اچانک انڈیا اور پاکستان کے درمیان کارگل کی جنگ چھڑ جاتی ہے جہاں وکرم ہر قیمت پر دشمنوں کو ذلت و رسوائی سے دوچار کرنا اور اپنے ملک کا جھنڈا لہرانا چاہتا ہے۔ اسی دوران اس کی اپنی بتی گل ہو جاتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فلم کے ایک منظر میں کیپٹن وکرم اپنے دوست سے کہتا ہے ’میں انڈیا کا جھنڈا میدان میں لہرا کر آؤں گا یا اس میں لپٹا ہوا آؤں گا۔‘ اس طرح کی انتہائی سستے جذباتی مکالموں سے لتھڑی ہوئی یہ فلم نہ صرف جنگ کو خوبصورت بلکہ تمام انسانی رشتوں سے برتر بنا کر پیش کرتی ہے۔ جو عمر محبت کرنے اور سنہرے خواب دیکھنے کی ہے اس میں وکرم اپنی محبوبہ سے رومانس لڑانے کے بجائے وطن پر قربان ہونے کو ترجیح دیتا ہے۔

وکرم ایک ’مثالی‘ نوجوان ہے جس پر نہ صرف اس کی محبوبہ اور اس کے خاندان والے بلکہ پوری قوم فخر کرتی ہے۔

 ایسی قوم جو کسی جنگجو کو اپنا ہیرو سمجھتی اور فخر سے پیش کرتی ہے اس کی ذہنی پستی اور فکری افلاس کا کیا عالم ہو گا۔ مگر مودی ہر حال میں لمبے عرصے تک وزارت عظمیٰ کا تاج اپنے سر پر سجائے رکھنا چاہتے ہیں جس کے لیے ہندو انتہا پرستی اور حب الوطنی تیر بہدف نسخے ہیں۔ مودی ہر حال میں ایسے پرتعصب نظریات فروغ دینا چاہتے ہیں اور بالی وڈ یہ کام انتہائی محنت اور ’ایمانداری‘ سے سر انجام دے رہا ہے۔

 83

فلم فیئر ایوارڈز میں 14 نامزدگیوں کے باوجود 83 تعداد کے اعتبار سے لمبی چوڑی کامیابیاں نہ سمیٹ سکی۔ لیکن دوسری طرف سردار اودھم اور ممی گنتی میں زیادہ ہونے کے باوجود بیسٹ لیڈنگ ایکٹنگ جیسے کسی بھاری بھرکم پاپولر ایوارڈ سے محروم رہیں۔

اس فلم کی کہانی 1983 کے کرکٹ ورلڈ کپ میں انڈیا کی فتح کے گرد گھومتی ہے۔ بہت سی اونچ نیچ کا سامنا کرنے کے بعد ٹیم ایک ’بھارتی سپوت‘ کپل دیو کی قیادت میں انڈیا کا سر فخر سے بلند کر دیتی ہے۔

صاف نظر آتا ہے کہ ایک مقبول عام کھیل کے پردے میں ہندو قوم پرستی اور بھارتی غلبے کا چورن بیچا جا رہا ہے۔ کپل دیو کا بلا ’تلوار‘ جبکہ کھلاڑی ’فریڈم فائٹرز‘ ہیں۔

وہ مخالفین کا ’منہ توڑ دینا‘ چاہتے ہیں جیسے یہ کھیل کا میدان نہیں ایک جنگی معرکہ ہو۔ روایتی ثقافتی انداز میں سکھ کھلاڑی کو ’مسخرہ‘ پیش کیا جاتا ہے جو ہندو کپتان کی طرح بے پناہ ’بہادری‘ کے اوصاف سے عاری ہے۔

انتہا پرستی پر مبنی کسی بھی کلچر کی طرح عورت کو اس فلم میں بھی مرد کی جوانمردی کو ابھارنے اور اسے اپنی طاقت ثابت کرنے پر اکسانے کے لیے ایک آلے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ فلم کا مرکزی کردار ایک ہندو گھرانے کا سپوت ہے جو بھنور میں پھنسی کشتی کو نکالنے کی آخری امید ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے سیاسی میدان میں پردھان منتری مودی جی ہیں۔

فلم کی زبان تعصب انگیز اور مخالفین کے لیے تحقیر آمیز جملوں، مردوں کی حاکمیت اور ہندو نجات دہندہ اساطیری تشبیہات سے بھری پڑی ہے۔ قوم پرستی کا انجیکشن لگا کر مودی کی جماعت سیاسی میدان میں جو کچھ کرنا چاہ رہی 83 اس کی آئینہ دار ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ