ایران: زیر حراست ہلاک ہونے والی خاتون کی تدفین پر مظاہرے

ایران میں حجاب اتارنے پر گرفتاری کے بعد ہلاک ہونے والی نوجوان خاتون کی تدفین کے موقع پر مظاہرے پھوٹ پڑے۔

22 اکتوبر، 2014 کی اس تصویر میں ایرانی خواتین اصفہاں شہر میں خواتین کے حقوق کے لیے ہونے والے ایک مظاہرے میں شریک ہیں(اے ایف پی)

ایران میں حجاب اتارنے پر گرفتاری کے بعد ہلاک ہونے والی نوجوان خاتون کی تدفین کے موقع پر مظاہرے پھوٹ پڑے۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا۔

سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیوز میں مظاہرین کو ہلاک ہونے والی خاتون مہسا امینی کے آبائی شہر ساقیز میں حکومت مخالف نعرے لگاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ سینکڑوں مظاہرین ایران کے صوبے کردستان کے قریبی شہروں سے 22 سالہ نوجوان خاتون کے سوگ کے لیے یہاں پہنچے تھے۔

مہسا امینی جمعے کو دارالحکومت تہران کے ایک ہسپتال میں انتقال کر گئی تھیں۔

22 سالہ مہسا امینی اپنے اہل خانہ کے ساتھ ایرانی دارالحکومت میں موجود تھیں جب پولیس نے انہیں منگل کو حراست میں لے لیا تھا۔

مظاہرین ’آمر مردہ باد‘ کے نعرے لگا رہے تھے جب کہ کچھ خواتین نے احتجاجاً اپنے سر سے سکارف اتار کر پھینک دیے۔

ویڈیوز میں پولیس کو آنسو گیس کا استعمال کرتے ہوئے اور ایک شخص کے سر پر گہرا زخم دیکھا جا سکتا ہے۔

ہفتے سے شروع ہونے والا احتجاج صوبائی دارالحکومت سنندج تک پھیل گیا جو رات گئے تک جاری رہا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سوشل میڈیا پر ویڈیوز میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں بھی دیکھی گئیں۔ پوسٹ کی گئی دیگر ویڈیوز میں نوجوانوں کو آنسو گیس کے دھویں میں ٹائروں کو آگ لگاتے اور پولیس پر پتھر پھینکتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ روئٹرز ان تمام ویڈیوز کی تصدیق نہیں کر سکا۔

حالیہ مہینوں میں انسانی حقوق کے کارکنوں نے خواتین پر زور دیا ہے کہ وہ عوامی طور پر اپنے حجاب اتار دیں تاہم ایسا کرنا اسلامی لباس کوڈ کی خلاف ورزی ہو گا اور ان کو گرفتاری کا خطرہ ہو گا کیونکہ ملک کے سخت قوانین ’غیر اخلاقی رویے‘ کے خلاف کریک ڈاؤن کی اجازت دیتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جانے والی ویڈیوز میں کئی ایسے کیسز دکھائے گئے ہیں جن میں مذہبی پولیس کی طرف سے ان خواتین کے خلاف سخت کارروائی کی گئی جنہوں نے اپنا حجاب اتار دیا تھا۔

موت کی تفتیش

حکام نے مہسا امینی کی موت کی تحقیقات شروع کر دی ہیں لیکن ایک طبی عہدیدار نے ہفتے کو کہا کہ فرانزک ٹیسٹ کے نتائج میں تین ہفتے لگ سکتے ہیں۔

وزیر داخلہ عبدالرضا رحمانی فضلی نے سرکاری ٹی وی کو بتایا کہ امینی پر تشدد کی کوئی اطلاع نہیں تھی۔

پولیس نے کہا کہ مہسا امینی گرفتاری کے بعد حراستی مرکز میں بیمار پڑ گئی تھیں۔ پولیس نے سوشل میڈیا پر لگائے جانے والے ان الزامات کو مسترد کر دیا کہ ممکنہ طور پر انہیں مارا پیٹا گیا ہے۔

پولیس نے اس حوالے سے سی سی ٹی وی فوٹیج جاری کی جو بظاہر ان کے بیان کی حمایت کرتی ہے۔

عالمی مذمت

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تنطیموں اور کارکنوں نے مہسا امینی کی ’مشتبہ‘ موت کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا ہے۔

عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ ’22 سالہ خاتون مہسا امینی کی حراست میں مشتبہ موت کا باعث بننے والے حالات، جن میں حراست میں تشدد اور دیگر ناروا سلوک کے الزامات شامل ہیں، کی جرم کے طور پر تحقیقات کی جانی چاہیے۔‘

عالمی تنظیم نے مزید کہا کہ ’تمام ایجنٹس اور ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔‘

امریکی صدر جو بائیڈن کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے بھی مہسا امینی کی موت کی مذمت کی ہے۔

انہوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا: ’ہمیں 22 سالہ مہسا امینی کی موت پر گہری تشویش ہے جنہیں مبینہ طور پر ایران کی اخلاقی پولیس کی حراست میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ان کی موت ناقابل معافی جرم ہے۔ ہم ایرانی حکام کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے جواب دہ ٹھہراتے رہیں گے۔‘

ممتاز ایرانی وکیل سعید دہقان نے مہسا امینی کی موت کو ’قتل‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے سر پر چوٹ آئی تھی جس کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوئی۔

نیویارک میں قائم سینٹر فار ہیومن رائٹس کے سربراہ ہادی غیمی نے ان کی موت کو ایک  ’سانحہ‘ قرار دیا جس کو روکا جا سکتا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا