ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری معاہدے کی ممکنہ ناکامی خطرناک کیوں؟

ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات تعطل کا شکار ہیں جس میں کسی پیش رفت کا جلد امکان کم ہے۔

ایران کی ایٹمی توانائی تنظیم کی جانب سے 23 دسمبر، 2019 کو جاری کی گئی ایک تصویر میں دارالحکومت تہران کے جنوب میں واقع اراک کے جوہری پانی کے ری ایکٹر کو  دیکھا جاسکتا ہے (فائل فوٹو: اےایف پی/ ایچ او/ اٹامک انرجی آرگنائزیشن آف ایران)
 

ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے ایران اور امریکہ کے درمیان مذاکرات تعطل کا شکار ہیں جس میں کسی پیش رفت کا جلد امکان کم ہے۔

دونوں ممالک نے 2021 میں بات چیت کا آغاز کیا تھا تاکہ ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے ایک ایسے سیاسی معاہدے کو از سر نو شروع کیا جا سکے جو اب ناکارہ ہو چکا ہے۔

تاہم ایران اور امریکہ کے درمیان 2015 کے جوائنٹ کمپری ہنسیو پلان آف ایکشن نامی جوہری معاہدے کی دوبارہ تجدید اور اس پر عمل درآمد کے امکانات تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔

چین، فرانس، جرمنی، روس، برطانیہ اور امریکہ سبھی نے 2015 کے اس منصوبے پر اتفاق کیا تھا۔ مگر 2018 میں امریکہ اس معاہدے سے ایسے دستبردار ہوا کہ اس کی افادیت ختم ہو کر رہ گئی۔

 امریکی حکام نے سات ستمبر 2022 کو اسرائیل کے وزیر اعظم یائر لاپید کو بتایا کہ ویانا میں جاری مذاکرات کے باوجود اس بات کا امکان نہیں کہ مختلف ممالک پر مشتمل یہ گروپ جلد ہی کسی معاہدے پر دستخط کرے گا۔

یورپین یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزپ بوریل نے اس سے قبل پانچ ستمبر کو اس بات پر زور دیا تھا کہ امریکہ اور ایران کی اختلافی پوزیشنز کی وجہ سے نئے معاہدے تک پہنچنے کی کوششیں ’خطرے میں‘ ہیں۔

میں نے دو دہائیوں تک جوہری عدم پھیلاؤ اور امریکی قومی سلامتی کے حوالے سے کام اور تحقیق کی ہے۔

جب سفارت کاری ایٹمی پھیلاؤ کو روکنے میں ناکامی سے دوچار ہو جاتی ہے تو دنیا میں ہر کوئی کم محفوظ ہو جاتا ہے، خاص طور پر جب معاملہ ایران جیسی ریاست کا ہو جو پورے خطے میں بدنیتی پر مبنی کارروائیوں میں ملوث ہے۔

امریکہ اور ایران کا معاہدہ جو عارضی ثابت ہوا

امریکہ اور اس کے اتحادی اس وقت سے ایران کے جوہری ہتھیاروں کے ممکنہ حصول کے بارے میں فکرمند ہیں جب سے ان کی انٹیلی جنس نے اس کے خفیہ جوہری پروگرام کا پردہ فاش کیا۔ ابتدائی اطلاعات کے بعد واضح ہوا کہ 2003 سے ایران کا یہ پروگرام منجمد ہے۔

ایران کے پاس جوہری ہتھیاروں کا ہونا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور مشرق وسطی کو غیر مستحکم کر سکتا ہے جس سے مشرق وسطی کے دیگر ممالک میں ایسے ہتھیار تیار کرنے کی خواہش تقویت پکڑے گی۔

کئی دہائیوں کے اختلافات کے بعد امریکہ اور ایران نے 2015 میں ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ 

15 جولائی، 2015 کو امریکی صدر براک اوباما نے کانگریس سے معاہدے کی پرزور حمایت کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر ہم نے دانش مندی سے (معاہدہ کرنے یا نہ کرنے) کا انتخاب نہ کیا تو آنے والی نسلیں اس لمحے کو ضائع کرنے پر ہم سے رعایت نہیں برتیں گی۔‘

اس معاہدے کے مخالفین پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’اگر دنیا کی 99 فیصد برادری اور جوہری ماہرین کی اکثریت اسے دیکھ کر کہتی ہے کہ یہ ایران کو جوہری بم بنانے سے باز رکھے گا اور آپ کہتے ہیں کہ ایسا نہیں تو کوئی متبادل پیش کیجیے، میں نے تو ابھی تک کوئی نہیں سنا۔‘ 

 اس معاہدے میں اتفاق کیا گیا کہ ایران پر عائد متعدد بین الاقوامی اقتصادی پابندیاں ہٹائی جائیں گی جبکہ بدلے میں ایران اپنی جوہری ٹیکنالوجی کی ترقی اور جوہری مواد کی افزودگی کو روک دے گا۔

یہ اس لیے اہم تھا کہ اس نے ایران کو جوہری بم تیار کرنے کے لیے درکار جوہری مواد کی افزودگی کا عمل ایک سال سے زائد عرصے تک سست کیے رکھا۔ اس نے ایران کو افزودگی صلاحیت بڑھانے سے بھی روکے رکھا۔ 

اس نے اقوام متحدہ کے ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کو ایران کی جوہری سرگرمیوں کی مزید نگرانی کا موقع فراہم کیا اور اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کو ایران کے تمام جوہری مقامات کا باقاعدگی سے مشاہدہ کرنے کی اجازت دی۔

لیکن یہ معاہدہ 2018 میں اس وقت ختم ہو گیا جب امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دور حکومت میں معاہدے سے دست برداری کا اعلان کر دیا اور ایران پر سینکڑوں اقتصادی پابندیاں دوبارہ عائد کر دیں۔

ایران نے 2019 تک انتظار کیا جس کے بعد اس نے بھی 2015 کے معاہدے کو باضابطہ طور پر توڑ دیا اور یورینیم کی افزودگی کو اس معاہدے کی رو سے طے شدہ حد 3.67 فیصد سے بڑھا دیا۔

مگر یہ واحد چیز نہیں جس نے 2015 کے معاہدے پر دوبارہ مل بیٹھ کر بات کرنے کا امکان پوری طرح مسدود کر دیا ہو۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے بعد سے ایران اپنی جوہری ٹیکنالوجی تیار کر چکا ہے لیکن ابھی تک حقیقی جوہری بم نہیں بنا سکا۔

2015 کی معاہدے کی تجدید 

اگر ایران امریکہ کے ساتھ جوہری معاہدے میں دوبارہ شامل ہوتا ہے تو اسے اپنے یورینیم کے وسیع ذخیرے کو برآمد کرنا ہو گا، اقوام متحدہ کے جوہری نگران اداروں کو اپنی تمام جوہری تنصیبات کی نگرانی کرنے کی اجازت دینا ہو گی اور جوہری ہتھیاروں سے متعلقہ تحقیقی کام بند کرنا ہو گا۔

ایسے کسی سفارتی معاہدے کی طرف لوٹنا انتہائی مشکل ہوتا ہے جس میں ایک فریق کو پہلے کے سٹیٹس کو پر پہنچنے کے لیے اضافی رعایتیں برتنا ہو۔

مجھے امریکی محکمہ خارجہ کی کثیر الجہتی جوہری سفارت کاری میں کام کرنے کا موقع ملا تھا جس دوران ہم نے دیکھا کہ شمالی کوریا کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کے حوالے سے وقفے وقفے سے چھ سال تک مذاکرات چلتے رہے اور بالاخر 2009 میں ناکامی سے دوچار ہو گئے۔

بدقسمتی سے ایران بھی اسی راستے پر گامزن دکھائی دیتا ہے۔

اپریل 2021 میں ایران کی نطنز یورینیم افزودگی کی تنصیبات میں ایک دھماکہ ہوا جس سے بجلی کا نظام کچھ وقت کے لیے معطل ہو گیا۔

اس کے بعد ایران نے یورینیم کی افزودگی شروع کر دی اور اسے 60 فیصد سے زائد تک افزودہ کر لیا جو اب تک کی ریکارڈ شدہ بلند ترین سطح ہے، ایک ایسی سطح جو ہتھیاروں کی تیاری کے لیے درکار ہوتی ہے۔

  گذشتہ چند برسوں کے دوران بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجینسی کے مانیٹرنگ آلات کی رسائی کم کرنے اور ہتھیار بنانے کے لیے ضروری یورینیم دھاتوں پر تحقیق کے آغاز جیسے فیصلوں نے ایران کو 2015 کے معاہدے پر واپس آنے کے امکان سے مزید دور کر دیا ہے۔

 ایران آج کہاں کھڑا ہے

ایران کے پاس فی الحال یہ تیکنیکی صلاحیت موجود ہے کہ وہ چند ہفتوں کے اندر اندر جوہری بم تیار کر سکے تاہم ابھی تک اس کے پاس ہتھیار سازی کے لیے درکار ضروری علم نہیں۔

بم کے ڈیزائن اور تیاری کے لیے ایک مختلف قسم کی ٹیکنالوجی کی ضرورت ہوتی ہے جسے تیار کرنے میں ایران کو تقریباً دو سال لگ سکتے ہیں۔

ایران کی جوہری ہتھیار تیار کرنے کی تیکنیکی صلاحیت امریکی حکومت کے لیے 2015 کے معاہدے پر واپس آنے کی اہمیت کم کر دیتی ہے کیونکہ ایران کے پاس جو علم آ چکا ہے اسے واپس پینڈورا باکس میں نہیں ڈالا جا سکتا۔   

تاہم دوبارہ سے معاہدے میں واپسی ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کم کرنے، اعتماد پیدا کرنے اور شاید سیاسی تعلقات استوار کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ دونوں فریق اس مستحکم صورت حال سے فائدہ اٹھائیں گے: ایران اقتصادی طور پر بین الاقوامی نظام میں دوبارہ شامل ہو سکے گا اور امریکہ اس طویل مشق سے باہر نکل سکے گا جو وہ ایران کو جوہری بم تیار کرنے سے باز رکھنے کے لیے کیے چلا جا رہا ہے۔

 اگرچہ ابھی ان میں سے کوئی بھی بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی۔

اگرچہ فریقین نے 2021 کے اوائل میں 2015 کے معاہدے کی تجدید کے حق میں بات کی تھی اور اب بھی کر رہے ہیں مگر بہت سے نکات پیش رفت کے راستے میں رکاوٹ ہیں۔

15 اپریل 2019 کو امریکہ نے ایرانی پاسداران انقلاب کا نام کالعدم تنظیموں میں ڈال دیا تھا۔ اگر ایران دوبارہ سے معاہدے کا حصہ بنتا ہے تو وہ ترجیحی طور پر مطالبہ کرے گا کہ پاسداران انقلاب کو امریکہ اپنی غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نکالے اور اس بات کی ضمانت دے کہ آئندہ کوئی امریکی صدر تجدید شدہ جوہری معاہدے سے دست بردار نہیں ہو گا۔

امریکہ کے بنیادی مسائل ایران میں یرغمال اپنے قیدیوں کو آزاد کروانا اور ایران کے جوہری بم کی تیاری کے لیے مواد جمع کرنے کے وقت میں اضافہ لانا ہے۔ 

گذشتہ ماہ آٹھ اگست کو یورپی یونین نے 25 صفحات پر مشتمل معاہدے کا ’حتمی مسودہ‘ متعلقہ ممالک کو بھیج دیا ہے جو اس سود مند معاہدے کی آخری کوشش محسوس ہوتی ہے۔

 جب تک ایران یورپی یونین کی یقین دہانیوں پر اعتماد نہیں کرتا معاہدے کی ناؤ کنارے لگنا مشکل ہے۔

بدقسمتی سے اگر ایسا نہ ہوا تو اس کے بعد ایران ہتھیار بنانے کے لیے درکار اپنی جوہری صلاحیتوں میں اضافہ کرے گا اور بتدریج اپنے جوہری پروگرام کو بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کی نگرانی سے دور لے جائے گا۔

ایران کے یہ اقدامات تصادم پر مبنی ردعمل کو ہوا دیں گے جس سے نہ صرف کسی نئے معاہدے کا امکان انتہائی کم ہو جائے گا بلکہ علاقائی تنازعات بھی ممکنہ طور پر شدید تر ہو جائیں گے۔  

نوٹ: مصنت نینا سری نیواسن رتھبون امریکہ کے یو ایس سی ڈورنسف کالج آف لیٹرز، آرٹس اینڈ سائنسز میں انٹرنیشل ریلیشز کی پروفیسر ہیں۔

یہ مضمون پہلے دا کنورسیشن میں شائع ہوا تھا۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا